ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2013 |
اكستان |
|
عمر میں سیّد صاحب کااِتنا چرچا کہیں نہیں دیکھا۔'' (شاندار ماضی جلد چہارم ص ٢٧٢) اہل ِ دیوبند نے اَپنی بساط کے مطابق اُسی روِش پر چلتے ہوئے جہاد ١٨٥٧ء میں حصہ لیا اَور جب اُس مسلح جنگ ِآزادی میں ناکامی ہوئی تو ہر وہ شخص جس نے آزادی ٔوطن کی جنگ میں کوئی حصہ لیا تھا، برطانوی حکومت کا باغی اَور مجرم قرار پایا۔ اَنگریزوں نے دوبارہ تسلط حاصل کرنے کے بعد جس غیض وغضب کے ساتھ اِس کا اِنتقام لیاوہ کیفیت شاندار ماضی وغیرہ میں مطالعہ کی جا سکتی ہے، صاحب ِتاریخ دیوبند تحریر فرماتے ہیں کہ صرف دیوبند میں ٤٤ اَشخاص کو پھانسی پر لٹکایا گیا، آم کے جس درخت پر لوگوں کو پھانسی دی گئی اُس کو راقم سطور نے بھی دیکھا ہے، آم کا یہ درخت ''سولی والا'' کہلاتا تھا۔ ٭ ١٦ آدمیوں کو دس دس دس سال قید کی سزا دی گئی۔ ٭ ٢٠ آدمیوں کو تین تین سال قید کی سزا دی گئی۔ ٭ ٣٤ اَشخاص پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ ٭ ٣٤ اَشخاص سے آئندہ پُر اَمن رہنے کی ضمانت لی گئی۔ ٭ ٧ آدمی ایسے خوش قسمت تھے کہ اُن کو کوڑے مار کر چھوڑ دیا گیا۔ ٭ مضافات کے تین گاؤں نذرِ آتش کردیے گئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ دیوبند، تھانہ بھون، کیرانہ، کاندھلہ، شاملی ،پھلت، کھتولی، جانسٹھ، جھنجھانہ، بڈھانہ، نانوتہ، گنگوہ، منگلور، رُڑکی، اَنبیٹھہ، رائے پور، رام پور (منہیاران) ،نگڑ، جو اِس علاقے کے مشہور قصبات ہیں اُن کے خواص و عوام ہم خیال تھے اِس لیے بہت بڑے بڑے حضرات باوجود مسلح مقابلوں کے بچ گئے۔ اَنگریز مخبری کا جال اِس علاقہ میں کامیاب نہیں رہا، شروع سے ہی اِن حضرات نے پوری بیدار مغزی سے کام لیا جبکہ (جلد چہارم ص ٢٧٥ پر) شاندار ماضی میں''١٨٥٧ء کے دہلوی مؤرخ شمس العلماء ذکا ء اللہ خان کی ایک دلچسپ تحریر '' کے عنوان کے تحت فرمایا گیا ہے، وہ لکھتے ہیں :