ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2013 |
اكستان |
|
جو مسلمان بادشاہوں، روہیلوں اَور مرہٹوں کے عہد ِ حکومت میں دی جا رہی تھی، برطانوی حکومت کے زمانہ میں ضبط ہو کر ''محالِ مضبطہ '' قرار دی گئی۔ (تاریخ ِدیوبند ص ٢٤٧ نیز بحوالہ تاریخ ِ سہارنپور ص ١٦١ ) سیور غال کی اِن زمینوں کے ضبط ہوجانے سے شیوخ (عثمانی و صدیقی) کے بہت سے مرفّع حال خاندان نانِ جویں تک کے محتاج ہوگئے۔ اُس وقت اَنگریز حکام کے غیض و غضب کا یہ عالم تھا کہ ع جسے دیکھا حاکم وقت نے ، کہا یہ بھی قابلِ دَار ہے ! (تاریخ ِدیوبند ص ١٨٦) اِس کے بعد دُوسرا دَور شروع ہوا جس میں اہل اللہ کے ہاتھوں دارُالعلوم دیوبند کی بنیاد پڑی یہ علمی اَور سیاسی مرکز بنا۔ یہیں سے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن اَسیر مالٹا قدس سرہ کا وجودِ مسعود ١٨٥٧ء کے دَور کے بعد سب سے عظیم تر اِنقلابی تھا جس میں اُن کی رُوحانیت کو بڑا دَخل تھا ۔میں نے ١٩٦٤ء میں اَمیرِ جماعت ِتبلیغ مولانا محمد یوسف صاحب رحمہ اللہ سے سنا کہ '' مسلمانوں کا ایک جگہ اِس طرح جمع ہوجانا کہ جس طرح سب حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ کے زمانہ میں جمع ہوگئے تھے، یہ تو محال ہے اَلبتہ اپنی سی کوشش کی جا سکتی ہے۔'' اِس کے بعد اُن کا خطاب تین گھنٹہ تک جاری رہا جس کے بعد ظہر کی نماز کا وقت قریب آگیا تھا اُنہوں نے یہ خطاب مدرسہ صولتیہ میں نچلی منزل کے بڑے کمرے میں فرمایا تھا، اُس میں ہندو پاکستان کے چیدہ چیدہ علماء کو بلا یا گیا تھا جن کی تعداد بیس بائیس کے قریب تھی، بیٹھ کر ہی خطاب فرمایا تھا، مجھے بھی اَزراہ ِ شفقت مدعو فرمالیا تھا، مجھے حضرت شیخ الہند قدس سرہ کی عظمت ِ شان کا اِتنا علم نہ تھا جتنا حضرت مولانا محمد یوسف صاحب نوراللہ مرقدہ سے اُس دِن سنا اَور سن کر محو ِحیرت ہو گیا۔ اس مجلس میں مولانا رحمہ اللہ کے قریب فرانس کے مبلغ بھی بیٹھے تھے مولانا نے اُس روز پورے عالمی حالات پر ہر اِعتبار سے جامع خطاب فرمایا تھا جو حضرات اُس مجلس میں شریک ہوئے اُن