ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2012 |
اكستان |
|
کپڑے کی تجارت کرتے تھے مگر اِسلام کے بعد ساری دولت خدا کے کاموں میں خدا کے رسول ۖ کی مرضی کے مطابق صرف کردی حتی کہ ایک وقت ایسا آیا کہ پہننے کو نہ کُرتا تھا نہ تہبند، ایک کمبل تھا جس میں بجائے گھنڈی کے تکمہ کے کانٹے لگے رہتے تھے۔ ہجرت کے بعد تجارت کا سلسلہ بقدرِ ضرورت قائم کیا تھا جس کی آمدنی آپ کی گزران کے لیے کافی ہوتی تھی۔ خلافت کے بعد کچھ دنوں تک تو یہ سلسلہ قائم رہا مگر حضرت عمر اَور حضرت عبیدہ نے اِس سلسلہ کو قائم نہ رہنے دیا کہ مہمات ِ خلافت میں اِس سے خلل پڑے گا اَور مسلمانوں سے مشورہ لے کر بیت المال سے آپ کا وظیفہ بقدرِ قوت لایموت مقرر کیا یعنی ڈھائی ہزار درہم سالانہ (ایک درہم ساڑھے تین ماشہ چاندی کا ہوتا تھا)۔ ایک روز بی بی صاحبہ نے کہا کہ کچھ میٹھا کھانے کو جی چاہتا ہے ۔فرمایا اَب میں بیت المال سے زیادہ نہیں لے سکتا جو وظیفہ ملتا ہے اُس میں سے کچھ روزانہ بچاؤ ،تھوڑے دنوں میں کچھ میٹھی چیز پکا لینا چنانچہ چند روز کے بعد بی بی صاحبہ نے کوئی میٹھی چیز تیار کر کے سامنے رکھی تو آپ نے پوچھا کہ روزانہ کس قدر بچایا تھا۔ بی بی صاحبہ نے کوئی مقدار بیان کی، فورًا حکم لکھ بھیجا کہ اِتنی مقدار میرے وظیفہ سے کم کردی جائے کیونکہ بغیر میٹھا کھائے ہوئے بھی زندگی بسر ہو سکتی ہے۔ اپنی بیماری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ دیکھو کہ ایک دُودھ دینے والی اُونٹنی اَور ایک برتن اَور ایک چادر اَور ایک لونڈی جوبیت المال سے مجھے دی گئی تھی اُس کو بیت المال میں واپس کر دینا چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ چیزیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس واپس بھیجیں تو اُنہوں نے کہا کہ اے اَبو بکر ! اللہ کی رحمت آپ پر ہو آپ نے اپنے جانشین کے لیے مشکل نمونہ چھوڑا ہے۔ قریب وفات فرمایا کہ عمر بن خطاب نے نہ مانا اَور بیت المال سے مجھے وظیفہ دلایا یہاں تک کہ چھ ہزار درہم بیت المال کے اَب تک میرے ذمہ صرف ہو چکے ہیں۔ اَچھا میرا فلاں باغ بیچ کر یہ رقم بیت المال میں داخل کر دینا مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُن کی وفات کے بعد اُن کے وارِثوں سے فرمایا کہ اَب میں صاحب ِ اَمر ہوں میں اِس رقم کو تم لوگوں پر واپس کرتا ہوں۔ (طبقات ابن ِ سعد جلد سوم)