ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2012 |
اكستان |
|
ہمارے مکانوں کو لوٹ کر آگ لگادی۔ اُنہوں نے ہمارے گھروں میںنقد زیور اَور برتن وغیرہ کوئی چیز نہیں چھوڑی۔ یہ لوگ اَٹھارہ دِن تک یہاں ٹھہرے اَور نہایت اِطمینان کے ساتھ اُنہوں نے ہمارے گھروں کو لوٹا اَور پھر نذرِ آتش کردیا۔ اُن غارت گروں کے چلے جانے کے بعد ہم اَپنے سوختہ گھروں میں داخل ہوئے اَپنے مقتولوں کے کی تجہیز و تکفین کی، شاہی فرامین اَور دستاویزات میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی، سب جل کر راکھ بن گئی تھیں۔ دیوبند کی تاریخ میں یہ وہ قیامت خیز سانحہ ہے کہ جس نے ڈیرھ سو سال کی شمع علم کو ایسا بجھایا کہ آج اُس کے آثار ِنقوش ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔ خانقاہ اِس طرح برباد ہوئی کہ بعد میں پھر اُس کی تلافی نہ ہو سکی، دُوسری عمارتوں کی طرح مسجد بھی جو عہد ِجہانگیری کی تعمیر تھی منہدم ہوگئی۔ بعد میں خاندان کے مشہور بزرگ سیّد محمد اَنور صاحب نے ١٢٨٥ھ/ ١٧٦٨ء میں قدیم بنیادوں پر اَز سر نو مسجد تعمیر کرائی۔ کچھ اَور بزرگ : مولانا فضل اللہ صدیقی ٹونکی خطیب ِعیدین دسویں صدی کے اَوائل میں وارِد ہوئے، اَکبر کا دَور تھا اُس نے آپ کو خطیب مقرر کیا۔ اِس خاندان کے سارے اَفراد شروع سے آج تک دارُالعلوم کے معاون چلے آرہے ہیں۔ شیخ اَحمد دیبنی : حضرت شیخ مجدد الف ِثانی رحمة اللہ علیہ کے شاگرد اَور خلیفہ تھے۔ آپ آخر میں بنگال تشریف لے گئے، وہیں قیام اِختیار فرمالیا اَور وہیں وفات پائی۔ شاہ رَمزالدین : دیو بند کی سر زمین میں سلسلہ قادریہ کے ایک بزرگ شاہ رَمزالدین بغدادی (وفات :١٢٢٢ھ / ١٧١٠ئ) آسودہ خواب ہیں، آپ کو شہنشاہ اَورنگزیب (١٠٦٨ھ/ ٦٥٨ائ۔ ١١١٨ھ /١٧٠٧ئ) اَور