ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2012 |
اكستان |
|
پندرہ منٹ ہوئے ہیں تو پہلے وہ گنتے تھے ایک دو تین تک اُس کے بعد وہ منٹوں کو گنتے تھے کہ یہ پانچ ہوئے یہ دَس ہوئے یہ پندرہ گویا غنیمت ہے کہ سوئیوں کی پہچان تھی اُن کو کہ وہ تین بجے ہیں اَور یہ منٹ۔ دُوسری علامت : اُنہوں نے کہا اُن کی کتاب میں ہے حوالے موجود تھے واقعی لکھا ہوا ہے یعنی بھولا پن ثابت کرنے کے لیے معصومیت ثابت کرنے کے لیے اُنہوں نے لکھا کہ اُنہیں دائیں بائیں جوتے کی تمیز نہیں ہوتی تھی ،دائیں پاؤں کا بائیں میں پہن لیتے تھے بائیں کا دائیں میں پہن لیتے تھے حتی کہ اُن کی بیگم صاحبہ نے نشان لگا دیا تھا کہ یہ دایاں پاؤں ہے اِس کے باوجود بھی وہ دائیں کا بائیں میں بائیں کا دائیں میں پہن لیتے تھے۔ تیسری علامت : اَور پھر اُنہوں نے کچھ اَور مذاق کی بات بھی کی اَور اِسی طرح کے واقعات و حالات سنائے اُنہوں نے کہا کہ یہ دیکھئے اُن کے بارے میں(خود اَحمدی) لکھتے ہیں کہ اُن کو پچاس دفعہ پیشاب آتا تھا اَور اِستنجاء کرتے تھے ڈھیلے سے وٹوانی کا شوق تھا اَور گڑ بہت کھاتے تھے تو وہ ڈھیلے جو ہوتے تھے وٹوانی کے وہ بھی جیب میں رکھتے تھے کیونکہ جانا پڑتا تھا بار بار اَور گڑ بھی جیب میں رکھتے تھے ایک جیب میں گڑ ایک میں وہ(ڈھیلے) تو مولانا نے کہا کیا پتہ کبھی اِس میں سے کھالیتے ہوں کبھی اِس میں سے کھالیتے ہوں اُنہیں تو جوتا بھی یاد نہیں رہتا تھا کہ یہ دائیں پاؤں کا ہے یا بائیں پاؤں کا ایسے کہہ کر پھر اُنہوں نے کہا کہ یہ بات کہی تو نہیں ہے (میں نے)لیکن ایسے آدمی کو اگر یہ نہ کہا جائے جو میری طرف منسوب ہے تو اَور کیا کہا جائے گا ۔ بہرحال مقدمہ اُن کا خارج ہو گیا۔ مطلب یہ ہے کہ اُنہوں(یعنی بحث کے لیے آئے ہوئے قادیانیوں) نے اُن عامل کے سامنے (ایسے ہی معجزات) پیش کیے ہوں گے تو اُنہوںنے کہا کہ دیکھو اگر میں تمہیں یہ دِکھا دُوں