ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2012 |
اكستان |
|
سیّد محمد عارف کے صاحبزادے سیّدو جیہہ الدین کے بارے میں بھی فرمان میں ایسے الفاظ موجود ہیں : ''شیخ و جیہہ الدین پسر شیخ مرحوم بصلاح و تقویٰ آراستہ لیاقت تمام دَارد بجائے پدر خود خانقاہ بتذکیر و تدریس باجماعت طالب ِعلماں و فقراء و صوفیاء مشغول اَست و خرچ خانقاہ فی سبیل اللہ مصروف اَست ۔'' فرامین ِشاہی اَور پروانہ جات میں جن کا ذکر پہلے گزرا ہے اِن حضرات کی نسبت یہ الفاظ لکھے گئے ہیں: ''غفران پناہ'' ،''مشیخت پناہ ''،'' حقائق و معارف آگاہ'' ۔اِن الفاظ سے اِن حضرات کے علم و فضل، زہدو تقویٰ ،شرف و منزلت اَور اُن کی علمی ودینی خدمات کا فی الجملہ اَندازہ کیا جا سکتا ہے، جدِ اَعلیٰ کے زمانہ سے لے کر ١١٨٩ھ /١٧٧٥ء کی آتشزدگی تک جو سکھوں نے کی تھی، خانقاہ میں اَبًّا عَنْ جَدٍّا درس و تدریس اَور بیعت و اِرشادات کا سلسلہ جاری رہا، ایک فتوی سیّد و جیہہ الدین کے دستخط کا موجود ہے جس پر ١٢٥١ھ کی مہر بثت ہے۔ محمد شاہ بادشاہ (١١٣١ھ/ ١٧١٨ئ۔ ١١٦١ھ /١٧٤٧ئ) کے عہد میں سیّد اَبرار اللہ بن فضل اللہ کو دیوبند اَور اُس کے اَطراف و جوانب کا قاضی مقرر کیا گیا، خاندان کے ایک بزرگ سیّد نور الحق کا وظیفہ نواب نجیب الدّولہ (وفات ١١٨٤ھ /١٧٧٠ئ) کی سرکار سے جاری تھا۔ غرض دیوبند میں اِس بلند پیمانہ پر دَرس و تدریس و تصوف کا سلسلہ بدستور چلا آرہا تھا اَور درسگاہ مدتوں سے قائم چلی آرہی تھی شاید اِسی لیے بعد میں قیام دارُ العلوم بھی دیوبند میں ہوا ہو لیکن اہل ِ دیوبند اَور اُس خاندانی درسگاہ کو ایک عظیم سانحہ پیش آیا۔ ہوایوں کہ ١١٨٩ھ/ ١٧٧٥ء میں سکھوں کے ایک بڑے گروہ نے دیوبند پر قزاقانہ حملہ کیا اُس وقت جنہوں نے مزاحمت کی اُن کے گھروں کو آگ لگادی۔ اِس حادثہ میں دیوبند کے کئی محلے جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ ایک یادداشت میں مرقوم ہے کہ ٩ ربیع الاوّل ١١٨٩ھ/ ١٧٧٥ء کو سکھوں کے ایک لاکھ سوار وپیادوں نے دیوبند پر حملہ کیا۔ ہماری آبادی (خانقاہ) کا محاصرہ کر کے