ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2012 |
اكستان |
|
میسر تھیں اَور دَرجنوں ڈاکٹر لمحہ بہ لمحہ ملالہ کی حالت کا جائزہ لے رہے تھے اُسے اِحتیاطًا مصنوعی تنفس دے کر بے ہوشی کے عالم میں رکھا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق ملالہ کو ایک مرحلہ پر ہوش میں لایا گیا تھا تاکہ اُس کی دماغی حالت کا اَندازہ لگایا جاسکے کیونکہ گولی لگنے سے ملالہ کی سر کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اَور اُس کے دماغ میں خراش آئی تھی۔ ذرائع کے مطابق ''ٹمپرول'' دماغ کا وہ حصہ ہوتا ہے جو جسمانی حرکات کو کنٹرول کرتا ہے ملالہ کے دماغ کا یہ حصہ کام کر رہا ہے کیونکہ جب وہ ہوش میں آئی تو ڈاکٹر نے اُس سے کہا کہ تم اپنی پلکیں جھپکاؤ تو اُس نے اپنی پلکیں جھپکائیں اَور ہاتھ پاؤں کو حرکت دی۔ اُس کے والد سامنے ہی کھڑے تھے ڈاکٹر نے پوچھا اِن کو جانتی ہو تو اُس نے آنکھوں کے اِشارے سے ہاں میں جواب دیا پھر ڈاکٹر نے ملالہ سے کہا کہ مٹھی بناؤ تو اُس نے مٹھی بنا کر دِکھائی لیکن دماغ کے زخم کو دیکھتے ہوئے ملالہ کو مسلسل وینٹی لیٹر پر رکھا گیا اَور نفسیاتی کیفیت کو بگڑنے سے بچانے کے لیے خواب آور دوائیں دی جاتیں رہیں۔ اِس دوران پاک فوج کے ڈاکٹر اِنتہائی توجہ سے ملالہ کا علاج کر رہے تھے ملالہ کی ٩اَکتوبر سے ١٥ اکتوبر تک اِنتہائی توجہ سے دیکھ بھال کی گئی۔ نیورو سرجری کا نازک آپریشن پشاور میں کیا گیا جس میں ملالہ کے سر سے گولی نکالی گئی اَور اِس آپریشن کی بین الاقوامی ماہرین نے بھی تعریف کی۔ اگرچہ ملالہ کو بیرونِ ملک منتقل کرنے کے لیے اُس کے والدین سے مشورہ کیا گیا لیکن اُنہوں نے تمام تر ذمہ داری ڈاکٹروں پر ڈال دی کہ وہ ملالہ کی طبی حالت دیکھتے ہوئے جو فیصلہ کریں گے وہ اِنہیں قبول ہوگا۔ ملالہ کے والدین اے ایف آئی راولپنڈی میں ملالہ کے علاج سے مطمئن تھے لیکن ذرائع کے مطابق حکومت ملالہ کے بیرونِ ملک علاج پر مسلسل دباؤ ڈال رہی