ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2012 |
اكستان |
|
وقت تک تمام مسلمان سربراہ کسی مجرم کو اُن کافروں کے حوالے نہ کریں۔ (٤) تمام مسلمان سربراہان اعلان کریں کہ آزادیٔ رائے کی آڑ میں توہین ِ رسالت کرنے کی اِجازت نہیں دی جائے گی۔ ٭ کیا آزادیٔ رائے کی آڑ میں حکومت کے خلاف بغاوت کی اِجازت دی جا سکتی ہے ؟ ٭ کیا آزادیٔ رائے کی آڑ میںبین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی جا سکتی ہے ؟ ٭ کیا آزادیٔ رائے کی آڑ میںحضراتِ اَنبیاء کرام علی نبیا و علیہم السلام کی توہین کی اِجازت دی جا سکتی ہے ؟ ٭ کیا آزادیٔ رائے کی آڑ میںصدرِ مملکت کو گالیاں دی جا سکتی ہیں ؟ اِسلام میں دہشت گردی کی اِنتہا یہ ہے کہ محمد ۖ کی ناموس پر حملہ کر کے اُن کی توہین کی جائے ،اِسلام میں اِس کی سزا قتل ہے اَور یہ ناقابل ِ معافی جرم ہے۔ اِس لیے مغرب کی پیروی میں جو مسلمان کہلانے والے سرکارِ دو عالم ۖ کی ذات ِ مبارکہ کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں یا غیر مسلم اَقلیت کے جو اَفراد سرکارِ دو عالم ۖ کی ذاتِ مبارکہ کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں اِسلام نے اُن کی سزا قتل رکھی ہے اَور اِس قانون کانام ہے : ''قانون ِ تحفظ ناموس ِ رسالت'' قانون ِ تحفظ ناموس ِ رسالت ۖ : اَب جو مرد یا عورت قانونِ تحفظ ِ ناموس ِ رسالت میں ترمیم کرنا چاہے یا ختم کرنا چاہے اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ توہین ِ رسالت کا دَروازہ کھولنا چاہتا ہے اَو وہ بھی سرکارِ دو عالم ۖ کی ذات ِ مبارکہ کی توہین کا مرتکب ہو کر دہشت گردی پھیلانا چاہتا ہے جس سے تمام مسلمان پریشان اَور اَذیت میں مبتلاہوجاتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اِس قانون کا اِستعمال غلط ہوتا ہے تو اِس کا یہ حل نہیں کہ اِس قانون کو ختم کردیا جائے بلکہ اِس کاطریقہ یہ ہے کہ مقدمہ دَرج کرنے کا طریقہ کار ہی ایسا اِختیار کیا جائے جس میں یہ شبہ ہی نہ رہے کہ اِس قانون کااِستعمال غلط ہواہے۔