ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2012 |
اكستان |
|
تھی لہٰذا پاکستانی اَور غیر ملکی ڈاکٹروں کی مشاورت کے بعد متحدہ عرب اَمارات سے ائیر ایمبولینس منگائی گئی اَور ملالہ کو برطانیہ لے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ '' ( روزنامہ اُمت کراچی ١٦ اَکتوبر ٢٠١٢) اِس رپورٹ کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ میڈیا پر چھائے مرزائی اَور آغاخانی رشوت خور تجزیہ نگاروں کے قبل اَز وقت جانبدرانہ تجزیے اَپنے آقاؤں کی نمک حلالی کے لیے تھے جس کا مقصد صرف یہ تھاکہ فوری اِشتعال پیدا کر کے تصادم کی ایسی فضا قائم کی جائے جو ''سنجیدہ'' اَور '' غیر سنجیدہ'' طبقہ میں خانہ جنگی پر منتہج ہو۔ اگر اِس ناخوش گوار واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیق نہ بھی کرائی گئی تب بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر خاص و عام پر اِس واقعہ کی جعل سازی واضح ہوتی چلی جائی گی۔ جبکہ ٢٠١٠ء میں اَمریکی اَخبار نیویارک ٹائمز کی بنائی گئی ایک ڈوکو مینٹری میں دعویٰ کیا گیاہے کہ'' بچی کے باپ ضیاء الدین یوسف زئی نے پاکستان میں اَمریکی سفیر، صدر بارک اَوباما کے خصوصی ایلچی رچرڈ بالبروک ،اَمریکی وزیر خارجہ اَور اَعلیٰ اَمریکی فوجی عہدہ داروں سے خفیہ ملاقاتیں کی تھیں اَور اُن سے درخواست کی تھی کہ وہ سوات آپریشن کو یقینی بنائیں تاکہ وہاں سے طالبان کا صفایا کیا جاسکے۔'' (ہفت روزہ ضرب مومن ١٩ تا ٢٥ اکتوبر) ٹائمز کی رپورٹ سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہیں کہ ''دال میں کالا کالا'' نہیں بلکہ ساری دال ہی کالی ہے۔ اللہ تعالیٰ عالم ِ اِسلام کو کفر کی سازشوں کو سمجھنے اَور اُن سے بچاؤ کی فکر عطا فرمائے، آمین۔