ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2012 |
اكستان |
|
اِسلامی صکوک پر چو تھا تحفظ : لائی بور کی شرح یا متوقع نفع مولانا تقی عثمانی مدظلہ لائی بور کی شرح کو معیار کے طور پر تسلیم نہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ''شرعی اِداروں نے اگر اِجرائے صکوک کے اِبتدائی دَو رمیں اِن مفاسد کا تحمل کیا تھا جس وقت اِسلامی مالیاتی اِدارے کم تھے تو اَب وقت آگیا ہے کہ اِس پر نظر ثانی کی جائے اَور صکوک کو اُن مشتبہ اُمور سے خالی کیا جائے جس کی صورت یہ ہے کہ یا تو حوافز (یعنی حسن ِکار کردگی پر زائد نفع کے اِستحقاق) کے سلسلہ کو قطعی طورپر بند کیا جائے یا حوافز کو کاروباری منصوبے سے متوقع نفع کی بنیاد پر قائم کیا جائے، لائی بور کی بنیاد پر قائم نہ کیے جائیں اِس طرح یہ (یعنی متوقع نفع )ایک معیار بن جائے گا جس کی بنیاد پر اِسلامی مالیاتی اِدارے مروجہ سودی اِداروں سے بالکلیہ ممتاز ہوجائیں گے۔'' ہم کہتے ہیں : اَوّل تو ہم اُو پر ذکر کرچکے ہیں کہ مضاربت میں مخصوص نسبت سے زائد نفع مدیر کو اُس کی حسن ِ کار کردگی کی وجہ سے دینا بے بنیاد بات ہے۔ دُوسرے لائی بور کی شرح کے بجائے متوقع نفع کو معیار بنانا یہ بھی ایک مفروضہ ہے۔ اَور ملکوں کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہتے اَلبتہ اپنے ملک کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ یہاں ٹیکس کا جو نظام ہے اُس کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی کارو باری یا صنعتی اِدارہ صحیح اَعدادو شمار نہیں دیتا اَور نہ ہی وہ یہ چاہتا ہے کہ دُوسروں کو اِس کے نفع کے صحیح اَعداد و شمار معلوم ہوں اِس لیے وہ متوقع نفع بھی لائی بور کی شرح کے قریب قریب ہی بتائے گا۔ اِسلامی مالیاتی اِدارے زیادہ ہونے سے یہ خدشہ کم نہیں ہوگا کیونکہ صحیح اَعداد و شمار کے عدم اِظہار کی اَصل وجہ تو پھر بھی موجود رہے گی۔