ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2012 |
اكستان |
|
''خوجوں کے دُوسرے مبلغ شاہ شمس تھے جو ملتان میںایک بڑے شاندار روضہ میں آرام فرماہیں ،اُنہیں عام طور پر شاہ شمس تبریز کہا جاتا ہے لیکن خوجہ روایات کے مطابق وہ اِیران کے شہر سبزوار سے تشریف لائے اُن کے متعلق متعدد روایات مشہور ہوگئی ہیں۔'' ١ تبلیغی حکمت ِعملی : جو چیز نزاری اِسماعیلی داعیوں میں مشترک نظر آتی ہے وہ اُن کی فکرو نظر پر ہندو مت کا غلبہ ہے۔ اِسی لیے اُنہوں نے ہندو مت کے بعض عقائد کو صحیح تسلیم کیا ہے، ہندووانہ نام رکھے حتی کہ اپنی دعوت کے اَرکان کے نام بھی ہندووانہ رکھے مقامی تہذیبوں کی برتری تسلیم کرنے میں بھی تأمل نہیں کیا۔ ٢ اِسی بناپر آج موجودہ عہد میں اِسماعیلی مذہب میں ویدانیت اَور ہندو مت کے فلسفہ کا دخل بہت زیادہ ہے۔ شیخ اِکرام آبِ کوثر میں لکھتے ہیں : ''پنجاب کی ایک جماعت جو بظاہر ہندوؤں میں شامل ہے اَور خوجوں کے موجودہ اِمام آغاخان کو اپنا دیوتا تسلیم کرتی ہے اَور اَپنے آپ کو شاہ شمس کے نام پر ''شمسی '' کہتی ہے ۔'' ٣ گِنان : شاہ سبزواری نے ہند اَور سندھ کی مختلف زبانوں میں عبور حاصل کیا اَور عوام تک رسائی کے لیے اَور مافی الضمیرکے اِظہار کے لیے شعر و نغمہ کا سہارا لیا۔شاہ شمس سبزواری اَور قرونِ وسطیٰ کے دُوسرے اِسماعیلی مبلغین نے بر صغیر میں اپنے مسلک کے مطابق تبلیغ کرنے کے لیے مقامی زبانوں میں جو سریلے گیت سیکھے اُنہیں ''گنان'' کہا جاتا ہے۔ یہ گنان آغاخانی جماعت کے خواص میں مناجات کی صورت میں رائج ہیں۔ یہ گیت اُن کے یہاں متبرک آیات کا درجہ رکھتے ہیں اَور اُنہیں دینی تقدس حاصل ہے۔ اِسماعیلی دعوت دُوسرے مظاہر کے ساتھ ساتھ یہ گنان بھی صدیوں اِخفاء میں رہے ١ شیخ اِکرام: آب ِکوثر ،اِدارہ ثقافت ِاِسلامیہ لاہور، ١٩٩٤ء ص ٣٤٣۔ ٢ اِسماعیلیہ ص ١٠٨۔ ٣ آبِ کوثر ص ٣٤٣