ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2012 |
اكستان |
|
اِسلامی صکوک پر چھٹا تحفظ : مدیر کا یہ کہنا کہ وہ اَصل جائیداد کو قیمت ِ اسمیہ (Face value) پر واپس خریدلے گا مولانا تقی عثمانی مدظلہ اَپنے مقالے الصکوک وتطبیقاتھا المعاصرة میں لکھتے ہیں : شریعت کی رُو سے وہ تجارتی سر گرمیاں جو حقیقی ہوں اُن میں رأس المال کی واپسی کی ضمانت نہیں دی جاتی کیونکہ اِسلامی شریعت میں حقیقی نفع اَور نقصان دوامی طور پر ساتھ ساتھ چلتے ہیں لہٰذا تجارتی صکوک میں اَصل ضابطہ یہ ہے کہ اُن میں حاملین ِ صکوک کو اُن کے رأس المال کی واپسی کی ضمانت نہیں دی جاتی بلکہ وہ اَصل جائیداد کی حقیقی قیمت کے حقدار ہوتے ہیں خواہ وہ قیمت ِ اِسمیہ سے کم ہو یا زیادہ۔ لیکن آج جو صکوک رائج ہیں اُن سب میں حاملین ِ صکوک کو رأس المال کی واپسی کی براہ ِ راست ضمانت دی جاتی ہے اَور وہ اِس طرح کہ مدیر حاملین ِ صکوک سے عہد کرتاہے کہ جس جائیداد کی نمائندگی صکوک کر رہے ہیں وہ اُن کی حقیقی قیمت سے قطع نظر کرتے ہوئے اُن کو قیمت ِ اِسمیہ پر واپس خرید لے گا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اِس بات کی ضمانت دی جاتی ہے کہ صکوک کی مدت پوری ہونے پر حاملین ِ صکوک کو صرف اُن کا رأس المال واپس ملے گااَور اَگر منصوبے میں نقصان ہوا تو مدیر اِس کوبرداشت کرے گااَور اگر نفع ہوا تو خواہ وہ کتنا ہی ہو سب کا سب مدیر کا ہوگا اَور حاملین ِ صکوک کا حق صرف یہ ہے کہ وہ اپنا رأس المال واپس لیں جیسا کہ سودی سندات میں ہوتا ہے۔ اگر ہم اِس عہد کے جواز کی گنجائش پر غور کریں تو صکوک کے پیچھے عمل پر مدیر کبھی تو مضارب بن کر کام کرتا ہے کبھی شریک بن کر اَور کبھی وکیل ِ ِاستثمار بن کر۔ جب مدیر مضارب بن کر عہد کرے : اِس حالت میں اِس عہد کاباطل ہونا ظاہر ہے کیونکہ اِس میں مضارب کی جانب سے سرمایہ کاروں کو اُن کے رأس المال کی واپسی کی ضمانت ہے حالانکہ کسی نے بھی اِس کے جواز کا قول نہیں کیا۔ مجلس ِ شرعی کی جانب سے معیارِ مضاربت میں یہ شق شامل ہے :