ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2012 |
اكستان |
|
اُنیسویں صدی عیسوی کے اَواخر میں اِن کی پہلی اِشاعت ہوئی اَور اَب اِسماعیلی طریقہ بورڈ نے اُردو رسم الخط میں چارجلدوں میں اِن کو ''گنان شریف'' کے نام سے شائع کردیا ہے مگر اِس مجموعے تک دسترس بہت محدود ہے اَور یہ محض اپنے مسلک کے لوگوں کے لیے شائع کیے گئے ہیں۔ ١ شاہ شمس سبزواری کے گنان بھی اَب منظر عام پر آچکے ہیں اُن کا ایک اِنتخاب ڈاکٹر رُوبینہ ترین صاحبہ نے اپنی محققانہ کتاب ''شاہ شمس سبزواری سوانح حیات اَور آثار (تاریخ کے تناظر میں) '' میں شائع کیاہے۔ مجموعی طور پر اِسماعیلی داعیوں کے گنان دیکھنے کے بعد اِن کا رشتہ اِسلامی فکر سے جوڑنا بہت مشکل نظر آتاہے جو اِن گنانوں کے نام ہی سے ظاہر ہے مثلاً من سمجھانی، گربی گنان، چندربان، برہم پرکاش اَور دس اَوتار وغیرہ۔ اِن گنانوں کے متعلق علی جاہ شیخ دیدار علی ،مرتب تاریخ ائمہ اِسماعیلیہ شائع کردہ شیعہ اِمامی اَیسوسی ایشن برائے پاکستان میں لکھتے ہیں : ''پیر (شمس الدین سبزواری) کا کلام زیادہ تر صوفیانہ ہے جن میں دین کی تعلیم دی گئی ہے اِس کے علاوہ دعوت کے نادر نمونے بھی پائے جاتے ہیں مثلًا ہندو مت کو اِسلامی رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔' ' ٢ وفات : شاہ شمس سبز واری کی سن پیدائش کی توقطعی تعیین نہیں کی جا سکتی مگر مؤرخین کی اَکثریت اِس بات پر متفق ہے کہ اِن کا اِنتقال ملتان میں ٧٥٧ھ/ ١٣٥٦ء میں ہوا اَور اِن کے مزار کی دیوار پر بھی یہی سن دَرج ہے۔اِسماعیلی تاریخ ''نورِمبین'' کے مطابق اِن کی وفات کی تاریخ ایک فارسی شاعر نے اَبجد کے حساب سے نظم کی ہے جس سے اُن کا سالِ وفات نکلتا ہے۔ ٣ ہجرت ہفت صد و پنجاہ و اَز ہفت حساب حاسباں تاریخ دَر وقت ١ تفصیل کے لیے دیکھیے : شاہ شمس سبزواری ص ٦٤ تا ٨٣ ۔ ٢ اِسماعیلیہ ص ١٠٦۔ ٣ شاہ شمس سبزواری سوانح وآثار ص ٥٣ ۔