ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2012 |
اكستان |
|
ذرائع کا کہنا ہے کہ سوات آپریشن میں 25 لاکھ سے زائد اَفراد متاثر ہوئے، اپنے گھر بار، کھیت کھلیان اَور کاروبار چھوڑ کر مہینوں کیمپوں میں مصیبتیں جھلیں لیکن اَپنا دُکھ دَرد پختون روایات کے مطابق اپنے سینوں میں چھپائے رکھا، اُسے مالی منفعت اَور شہرت کے لیے اِستعمال نہیں کیا جبکہ اِس کے برعکس ضیاء الدین نے شہرت کے حصول کے لیے اپنے بچی ملالہ یوسف زئی کے ذریعے مختلف اِداروں، اَین جی اَوز اَور میڈیا تک رسائی حاصل کر لی۔ سوات آپریسن کے خاتمہ کے بعد متاثرین واپس آکر اپنے گھرں کی مرمت اَور کاروبار کی بحالی میں مصروف ہو گئے اَور اُن کے بر عکس ضیاء الدین اپنے اسکول کے لیے فنڈ اکھٹے کرنے اَور این جی اَوز سے پیسے بٹورنے لگے۔مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ ضیاء الدین نے محض دولت و شہرت کے لیے اَپنی بیٹی کی زندگی داؤ پر لگادی ہے۔ ضیاء الدین کے ایک قریبی رشتہ دار کا کہنا ہے کہ ملالہ یوسف زئی کے علاج کے لیے بیرونِ ملک روانگی کے بعد ضیاء الدین کی فیملی سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہے کیونکہ اُن کے فون نمبر بند مِل رہے ہیں۔ شاہ پور میں مقیم ضیاء الدین کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ صرف سوات آپریشن کے دَوران یہاں آئے تھے، اُن کا یہاں آنا جانا نہیں، طویل عرصہ سے خاندان کے ساتھ اُن کا تعلق واجبی سا ہے۔رشتہ داروں کا کہنا تھا کہ ضیاء الدین کے والد عالمِ دین تھے اَور اُنہوں نے اپنے بیٹے کے نظریات کی وجہ سے خاندان کے تمام اَفراد کو ضیاء الدین سے میل جول رکھنے سے سختی سے منع کیا ہوا تھا۔ دُوسری جانب ملاملہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ کے بعد جانبدارانہ اَور غیر ذمہ دارانہ میڈیا کو ریج پر پاکستان کے سیکولر اَور مذہبی طبقات کے دَرمیان کشیدگی بڑھ گئی ہے جبکہ بعض جگہ جھڑپیں ہونے کی اِطلاع بھی مِلی ہیں۔ ملالہ یوسف زئی کے خلاف