ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2012 |
اكستان |
|
اُجرت پر لے گا ............. تو یہ بالکل حرام ہے۔ '' مولانا تقی عثمانی مدظلہ مزید لکھتے ہیں : ''صکوک میں مدیر مذکور قرض کی پیش کش پر صرف اِسی صورت میں راضی ہوتا ہے کہ وہ حقیقی نفع میں اپنے حصے سے زائد کو حافز کی صورت میں حاصل کرے جس کی اُس کے لیے شرط کی گئی ہے جب لائی بور کے مقابلہ میں واقعی نفع زیادہ ہو۔ اِبن ِقدامہ رحمہ اللہ کی عبارت کی رُو سے یہ قرض حرام ہے۔ مدیر جو قرض دینے کا اِلتزام کرتا ہے کبھی شریک یا مضارب ہوتا ہے۔ یہ اِلتزام بھی شرکت و مضاربت کے عقد کے تقاضے کے خلاف ہے اَور حدیث میں مذکور بیع و قرض کی حرمت کی علت اِس پر پورے طور سے منطبق ہوتی ہے۔ '' مولانا تقی عثمانی مدظلہ نے معین نسبت سے نفع کم ہونے کی صورت میں نفع کو قرض سے پورا کرنے کو ناجائز بتایا اَور اِس کی دلیل یہ ذکر کی کہ رسول اللہ ۖ نے قرض اَور بیع کو اَکٹھا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ صوت قرض اَور بیع کی نہیں ہے کیونکہ :(١) مدیر قرض کااِلتزام کرتا ہے اَور وہی ہے جو اِبتدائے عمل میں حاملین ِ صکوک کے ہاتھ اَصل جائیداد و اَشیاء کو فروخت کرتا ہے۔ اگر اِس پر یہ شرط ہو کہ وہ لائی بور کی شرح سے واقعی نفع کم ہونے کی صورت میں حاملین ِ صکوک کو قرض اَدا کرے تو یہ بیع اَور قرض کی صورت بن جائے گی۔ پھر مولانا تقی عثمانی مدظلہ کے کلام سے واضح ہے کہ مدیر صکوک کبھی تو مضارب بنتا ہے کبھی شریک ِ عامل بنتاہے اَور کبھی اَپنی کسی جائیداد کو صکوک کی صورت میں فروخت کرتا ہے۔ جب مدیر صکوک نے مضاربہ یا مشارکہ کے صکوک جاری کیے ہوں تو اُن میں مدیر صکوک اپنی کوئی شے حاملین ِ صکوک کے ہاتھ فروخت نہیں کرتا بلکہ صکوک کے ذریعے حاملین ِ صکوک سے سرمایہ