ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2012 |
اكستان |
|
اَکٹھا کرتا ہے۔ اِس کے بعد مدیر صکوک حاملین ِ صکوک سے مضاربت یاشرکت کا معاملہ کرتا ہے۔ ترتیب ذاتی بہرحال یہی ہے اَور اِس کی رُو سے قرض کی شرط صکوک کی فروخت کے ساتھ نہیں ہے لیکن اِس کے بعد کے معاملہ میں ہے۔ اَور جب مدیر صکوک نے صکوک ِ اِجارہ فروخت کیے ہوں تو اِن کی صورت میں تو وہ اپنی جائیداد حاملین ِ صکوک کے ہاتھ فروخت کرتاہے لیکن اِس فروخت میں بھی قرض شرط نہیں ہے۔ شرط ہے تو اِس فروختگی کے بعد ہونے والے عقد ِاِجارہ میں ہے کیونکہ نفع کا مسئلہ اِس میں ہے جیسا کہ مضاربت اَور شرکت میں نفع کا مسئلہ ہوتا ہے۔ (٢) شرط یہ ہے کہ متعین نفع سے کم ہونے کی صورت میں مدیر صکوک حاملین ِ صکوک کے نفع کی رقم کو پورا کرنے کے لیے قرض دے گا۔ کیا وہ اپنے پاس موجود کسی اَور رقم میں سے دے گا یا مال ِ مضاربت اَور مالِ شرکت میں سے دے گا۔ اِس کا کچھ ذکر نہیں۔ بظاہر یہ ہے کہ وہ اَپنے کسی دُوسرے مال میں سے دے گا یا اپنے نفع میں سے دے گا۔ ایسے معاملات میں اپنے کسی اَور مال کو کوئی بیچ میں نہیں لاتا اَور یہ بھی ممکن ہے کہ مضارب کے پاس اَپناکوئی اَور مال سرے سے نہ ہو۔ لہٰذا صرف ایک ہی صورت رہ جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے نفع میں سے دے۔ لیکن بعض حالات میں یہ صورت نہیں بنتی مثلاً صکوک ِمضاربہ سے دس لاکھ کا سرمایہ جمع ہوا متعین نفع %٥ ہے۔ جو پچاس ہزار روپے ہوا نفع کی تقسیم نصف نصف طے ہوئی یعنی پچیس ہزارروپے مدیر کے اَور پچیس ہزارروپے حاملین ِ صکوک کے۔ اَب اگر بالفعل نفع% ٢ فیصد ہوا تو کل نفع بیس ہزار روپے ہوا۔ نصف نصف تقسیم ہو کر مدیر اَور حاملین ِ صکوک کو دس دس ہزار روپے ملے۔ متعین نفع سے موجودہ نفع تیس ہزار روپے کم ہے۔ اَب اگر مدیر اپنے دس ہزار روپے بھی حاملین ِ صکوک کو بطور ِقرض دے دے تب بھی متعین نفع پورانہیں ہوگا۔ اَب لامحالہ نفع پورا کرنے کے لیے اُس کو مالِ مضاربت میں سے حاملین ِ صکوک کو قرض دے گا جبکہ وہ حاملین ِ صکوک کامال ہے۔