ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2012 |
اكستان |
|
اِسلامی صکوک پر پانچواں تحفظ : نفع جب متعین نسبت سے کم ہو تو قرض دینے کی شرط مولانا تقی عثمانی مدظلہ لکھتے ہیں : جب حقیقی نفع معین نسبت (لائی بور) سے کم ہو تو اُس وقت قرض دینے کی شرط کرنے کے جواز کی کوئی شرعی دَلیل نہیں ہے کیونکہ مدیر قرض کا اِلتزام کرتا ہے اَور وہی ہے جو اِبتدائے عمل میں حاملین ِ صکوک کے ہاتھ اَصل جائیداد و اَشیاء کو فروخت کرتا ہے۔ اگر اِس پر یہ شرط ہو تو وہ لائی بور کی شرح سے واقعی نفع کم ہونے کی صورت میں حاملین ِ صکوک کو قرض اَدا کرے تو یہ بیع اَور قرض کی صورت بن جائے گی۔ اِمام مالک رحمہ اللہ نے مؤطا میں اَور اَبو داود اَور ترمذی نے حدیث کے یہ اَلفاظ نقل کیے کہ : لایحل سلف و بیع (بیع اَور قرض دونوں کو اَکٹھا کرنا جائز نہیں ہے) اِمام ترمذی رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ حدیث حسن ِ صحیح ہے اِس پر تمام اہل ِ علم کا اِتفاق ہے اَور کسی کا اِختلاف منقول نہیں ہے۔ اِبن ِقدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ''ولو باعہ بشرط ان یسلفہ او یقرضہ او شرط المشتری ذالک علیہ فھو محرم والبیع باطل، وھذا مذہب مالک والشافعی ولا اعلم فیہ خلافا۔'' '' اگر کوئی شے اِس شرط کے ساتھ فروخت کی کہ وہ خریدار کو قرض دے گا یا خریدار نے قرض دینے کی شرط کی تو یہ حرام ہے اَور بیع باطل ہوگی۔ اِمام مالک اَور اِمام شافعی رحمہمااللہ کا مذہب ہے اَور مجھے اِس سے کسی کا اِختلاف معلوم نہیں ہے۔ '' ایک اَور مقام میں اِبن قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : '' وان شرط ان یؤجرہ دارہ باقل من اجرتھا او علی ان یستاجر دار المقرض باکثر من اجرتھا ......... کان ابلغ فی التحریم۔'' '' اگر یہ شرط کی کہ زید اَپنامکان بکر کو اُس کی عام اُجرت سے کم کرایہ پر دے گا یا یہ شرط کی کہ زید قرض دینے والے بکر کے مکان کو اُس کی عام اُجرت سے زیادہ