ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2012 |
اكستان |
|
دِل کے آپریشن سے بچنے کا ایک کامیاب نسخہ ( جناب حکیم عبدالوحید صاحب سلیمانی ) پانچ سال پہلے کی بات ہے میں مطب میں بیٹھا تھا مریض آجا رہے تھے اَچانک فون کی گھنٹی بجی چونگا اُٹھا یا تو دُوسری طرف شریف جاوید صاحب بول رہے تھے۔ میرے بے تکلف دوست ہیں تیس بتیس سال سے اُن سے روابط ہیں مگر اُس دِن اُن کی آواز میں پریشانی جھلک رہی تھی۔ پوچھنے پر بتایا کہ ''کچھ دِنوں سے طبیعت خراب ہے اَور ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ میرے دِل کے دو والو بند ہیں۔ اینجیو گرافی(ANGIOGRAPHY) بھی ہو گی اَور بائی پاس بھی! میں اینجیو گرافی سے تو نہیں گھبراتا لیکن بائی پاس نہیں کروانا چاہتاآپ کے پاس اِسکے علاج کا کوئی دیسی نسخہ ہو تو بتائیے بلکہ تیار کر دیجیے۔'' میں اَبھی جواب نہیں دے پایا تھا کہ مطب میں تین آدمی داخل ہوئے اَور سامنے پڑی کرسیوں پر خاموشی سے بیٹھ گئے وہ بلوچی لباس زیب ِتن کیے ہوئے تھے، کندھوں پر اَجرک اَور سر پر بلوچی طرز کی ٹوپیاں تھیں۔ میں گفتگو میں مصروف رہا اَور شریف جاوید صاحب کو یقین دِہانی کراتا رہا کہ میرے پاس اَیسا نسخہ موجود ہے جو اِنشاء اللہ آپ کے مرض کا قلع قمع کردے گا مگر اُس کی تیاری میں کچھ وقت لگے گا، بات ختم کر کے میں نے جونہی چونگا رکھا، اُن آدمیوں سے ایک بولا : ''سائیں! یہ کس کا فون تھا؟'' میں نے ذرا نا گواری سے کہا ایک مریض کا تھا، اُس نے پوچھا : ''مگر سائیں وہ کہتا کیا تھا؟'' کہیںاُس کے دِل کے والو بند تو نہیں ؟''اَب میں نے حیرانی سے اُسے دیکھا جس نے یقینًا ہماری گفتگو سن لی تھی اَورہولے سے سر ہلایا۔ ''سائیں ! برا نہ مانیں، آپ کے پاس تو اِس کی دوائی موجود ہے۔ اَلماری سے نکالیں، مریض کو بُلائیں اَور اُس کے حوالے کردیں۔'' اَب میں نے اُس کی طرف غور سے دیکھا اَور اُس سے سوال کیا : ''آپ پہلی مرتبہ میرے پاس