ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2012 |
اكستان |
|
شیطان کو ہر معصیت میں اِختیار صرف بُلانے اَور ترغیب دینے ہی کا ہے ،بڑی چیز وہ تقاضا ہے جو خود آپ کے اَندر موجود ہے یعنی تقاضائے نفس تو شیطان سے بڑا نفس ہوا ۔نفس کو روکیے۔ یہاں تک دو مقدمے ہوئے ایک یہ کہ معصیت کا اَصلی سبب تقاضائے نفس ہے اَور شیطان صرف محرک ہے وہ کوئی فعل جبرًا ہم سے نہیں کرا سکتا کہ ہم اِرادہ بھی نہ کریں اَور کام ہوجائے۔ اَور دُوسرا مقدمہ یہ ہوا کہ تقاضا ئے نفس کے بعد ہمارا اِرادہ معصیت کا سبب ہوتا ہے۔ تو جب معصیت نفس کے تقاضے سے ہوتی ہے تو کوئی تدبیر معصیت سے بچنے کی اِس کے سوا نہیں ہو سکتی کہ تقاضائے نفس کو ضبط کیا جائے اَور یہ مشکل ہے۔ اِس کے لیے سہل تدبیر یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ تقاضائے نفس کیوں ہوتا ہے ؟ اِس کی وجہ یہ ہے کہ معاصی میں نفس کو لذت آتی ہے۔ وہ لذت گناہ کرنے والے کے پیش ِنظر نہیں ہوتی اَور وہ خدا کی ناراضی اَور عذاب جہنم ہے۔ اِس کو دُوسرے اِلفاظ میں اِس طرح کہہ سکتے ہیں کہ گناہ کرنے والے کو اِرادۂ گناہ کے وقت صرف ایک مخلوق پیش ِنظر ہوتی ہے یعنی لذت۔ اَور خدا پیش ِ نظر نہیں ہوتا،اگر اللہ تعالیٰ بھی پیش ِ نظر ہوجائے تو گناہ کا تقاضا کبھی نہ ہو۔( مفاسد ِگناہ ص ١٧٦) اَور صبر عن الشہوات بہت مشکل ہے کیونکہ شہوت رانی میں قضائے شہوت (شہوت پورا ہو جانے) کے بعد کچھ کوفت نہیں ہوتی اگر کسی کو رُوحانی کوفت ہو تو ممکن ہے لیکن ایسے بہت کم ہیں۔ عام حالت یہی ہے کہ شہوت رانی کے بعد اُس کا مزہ بڑھ جاتا ہے پہلے سے زیادہ آگ بھڑک جاتی ہے گو تھوڑی دیر کے لیے سکون ہوجاتا ہے۔ (دین و دُنیا ص ٢٦٧) اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو دیکھنے سے منع کیا ہے اُن سے باز رہنا ضروری ہے : فرمایا محرماتِ شرعیہ (یعنی جن چیزوں کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے )کی مثال بادشاہی چیزوں کی طرح ہے مثلًا بادشاہ نے یہ فرمایا کہ اِن چیزوں کو ہاتھ مت لگاؤ تو بس جن چیزوں کے چھونے سے منع کیا ہے اُن کو ہرگز نہ چھونا چاہیے اگرچہ سب چیزیں بادشاہ کی ہیں مگر منع کرنے کی وجہ سے اُن کو چھونا ہر گز درست نہ ہوگا اَور بلا اِجازت چھولے گا تو مجرم قرار دیا جائے گا۔ (باقی صفحہ ٥١ )