ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2012 |
اكستان |
|
ہوتی ہیں لیکن صحابہ ث کی بے تکلف زندگی کے بہ عین مطابق ہیں، اُس معاشرہ میں شادی بیاہ میں کوئی تکلف تھا ہی نہیں، باپ خود ہی اپنی بیٹی کا رشتہ براہِ راست دَاماد سے پیش کردیتا حتی کہ بعض صحابیات خودنکاح کا پیغام بھیجتیں اَور اِسے معاشرہ میں قطعاً معیوب نہ سمجھا جاتا۔ اِس کے برخلاف ہمارے یہاں کی تقریبات تکلّفات کا سرچشمہ بن گئی ہیں ایک ایک تقریب کے لیے اِس قدر لوازمات ہیں کہ اَصل تقریب میںاِتنا خرچ نہیں جتنا اُس کے لوازمات کا خرچ ہے۔ اِسی بناء پر معاشرہ میں نکاح جو ایک سادہ اَور آسان عمل تھا اُسے مشکل ترین اَور ہوش رُبا عمل بنادیا گیا ہے اَور لڑکی والوں کو تو اِس قدر بوجھل کردیا گیا ہے کہ اُنہیں اِس کا تحمل سخت دُشوار ہے، بس نہیں چلتا کہ لڑکے والے لڑکی والوں کی جائیداد اَور مکان بِکواکر اُن کے خون کا ایک ایک قطرہ چوس لیں ۔ سادگی کا مطلب لچڑپن نہیں ہے : اِسلام میں سادگی کامطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی وسعت ہونے کے باوجود بے ہنگم اَنداز میں زندگی گزارے اَور بے وقعت لباس اِستعمال کرے، جیساکہ بعض نام نہاد صوفیوں کا طریقہ ہے کہ کوئی قصداً ٹاٹ پہن کر ''ٹاٹ شاہ'' بن جاتا ہے اَور کوئی بے ہنگم اَنداز میں بال بڑھاکر اَور ہفتوں ہفتوں غسل اَور صفائی نہ کرنے کو ہی قبولیت کی دَلیل سمجھتا ہے، تو اِسلامی شریعت ایسی واہیات حرکتوںسے قطعاً بری ہے۔ حضرت جابر ص کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت اہمارے گھر تشریف لائے تو ایک شخص کو دیکھا کہ میلا کچیلا تھا اَور اُس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ آپ انے اِسے دیکھ کر فرمایا کہ ''اِسے کوئی ایسی چیز نصیب نہیں ہے جس سے یہ اپنے بالوں کو درست کرسکے۔'' اَور ایک شخص کے بدن پر آپ انے میلے کچیلے کپڑے دیکھے تو آپ انے فرمایا کہ ''کیا اِس کے پاس کپڑا دھونے کا بھی اِنتظام نہیں ہے۔'' (مشکوٰة شریف ٣٧٥٢) اِسی طرح حضرت اَبوالاحوص اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں پیغمبر علیہ السلام کی خدمت