ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2012 |
اكستان |
|
''معلوم ہوا کہ حضراتِ اَنبیاء علیہم السلام اپنی وِلادت، زِندگی، وفات،قبر، حشر غرض یہ کہ ہر جگہ اللہ کی اَمان میں رہتے ہیں۔ یحییٰ علیہ السلام کو بوقت ِولادت شیطان نے نہ چھوا جیسا کہ عام بچوں کو چھوتا ہے۔'' ١ یہ بات ثابت ہوگئی کہ اِس آیت کا مطلب صرف اِتنا ہے کہ اَنبیاء کرام علیہم الصلوٰة والسلام ہمہ وقت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نگرانی و حفاظت میں رہتے ہیں، نہ شیطان کا بس اِن پر چل سکتا ہے اَور نہ کسی قسم کا خوف اِنہیں لاحق ہوگا۔ اِس آیت میں یومِ ولادت، یوم ِوفات اَور دوبارہ زندہ کیے جانے کا دِن محض اِس لیے ذکر کیے گئے ہیں کہ یہ دِن ہر اِنسان کے لیے اِنتہائی اہم ہوتے ہیں۔ اَگر اِن دِنوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اَمان مِل جائے تو باقی اَیام میں تو بطریق ِاَولیٰ اَمن و سلامتی حاصل ہو جائے گی۔ لہٰذا ثابت ہوگیا کہ اِس آیت کا بھی مروجہ محفل ِمیلاد سے کوئی تعلق نہیں۔ بریلویوں کا ایک حدیث پاک سے اِستدلال اَور اُس کا جواب : بریلوی حضرات عام طور پر کہتے ہیں کہ جن جن اُمور سے حضور ۖ نے صاف صاف لفظوں میں نام لے کرمنع نہیں فرمایا تو ایسی سب چیزیں جائز ہیں اَور اِستدلال میں یہ حدیث ِپاک پیش کرتے ہیں۔ مَا اَحَلَّ فَھُوَ حَلَال وَمَا حَرَّمَ فَھُوَ حَرَام وَمَا سَکَتَ عَنْہ فَھُوَ عَفْو۔ ٢''حلال وہ ہے جس کو اللہ نے حلال کر دیا اَور حرام وہ ہے جس کو اللہ نے حرام کر دیا اَور جس سے خاموشی اِختیار کی ہے وہ ''عَفْوْ'' ہے۔'' اِس کا جواب یہ ہے کہ اِس حدیث ِمبارک کا یہ مطلب ہرگز نہیں جو بریلوی حضرات لیتے ہیں کہ جس چیز کو حرام قرار دیا گیا ہے صرف وہ حرام ہے باقی سب چیزیں حلال ہیں۔ اگر یہ مطلب ہوتا تو نبی کریم علیہ الصلوٰة والسلام ایسے ہی فرما دیتے۔ حضور ۖ کا چیزوں کی تین قسمیں کرکے حلال کو ١ تفسیر نور العرفان ص ٤٨٧ طبع اِدارہ کتب اِسلامیہ گجرات۔ ٢ مشکوٰة شریف ص ٣٦٢۔ اَبو دائود ج ٢ ص ١٨٣۔