ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2012 |
اكستان |
|
تقریب (یا اَیسا کوئی موقع ) پیش نہ آئے جس سے یہ خطرات جنبش کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو تو دیکھ لیا کریں اَور اُن کی تمام زینتوں پر نظر بھی ڈال لیں اَور اُن کے تمام ناز اَنداز ناچنا وغیرہ بھی مشاہدہ کر لیں لیکن پاک نظر سے (جیسا کہ لوگ کہہ دیتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم نہیں دی)۔ اَور نہ ہم کو یہ تعلیم دی ہے کہ ہم اِن بیگانہ (اَجنبی) عورتوں کا گانا بجانا سن لیں اَور اُن کے حسن کے قصے بھی سنا کریں لیکن پاک خیال سے ۔بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ نامحرم عورتوں کو اَور اُن کی خوش الحانی کی آوازیں اَور اُن کے حسن کے قصے نہ سنیں نہ پاک خیال سے اَور نہ ناپاک خیال سے بلکہ ہمیں چاہیے کہ اُن کے سننے اَور دیکھنے ہی سے ایسی نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے (رکھتے ہیں) تاکہ ٹھوکر نہ کھائیں کیونکہ ضروری ہے کہ بے قیدی کی یعنی آزاد نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آئیں۔ بے شک آزادی گناہ کا ذریعہ تو ضرور ہوجاتی ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اَور ہمارے دِل اَور ہمارے خیالات سب پاک رہیں اِس لیے اُس نے (پردہ کی) یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی۔ہر ایک پرہیزگار جو اپنے دِل کو پاک رکھنا چاہتا ہے اُس کو یہ نہیں چاہیے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بے محابا نظر اُٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اُس کے لیے اِس تمدنی زندگی میں غضِ بصر (یعنی نگاہوں کی حفاظت)کی عادت ڈالنا ضروری ہے یہی وہ عادت ہے جس کو اِحصان، عفت (پاکدامنی) کہتے ہیں۔ عفت و پاک دامنی کی ضرورت اَور اُس کا طریقہ : خوب سمجھ لیجیے کہ عفت نہایت قابلِ اِہتمام چیز ہے اَور اِس کے لیے اُن ذرائع کی ضرورت ہے جو شریعت نے تجویز کی ہیں۔ اَور وہ ذرائع اِختیار میں ہیں مثلاً نگاہ کو بچانا کہ یہ قابو سے باہر نہیں ہے گو اِس میں کچھ تکلیف ہو مگر وہ تکلیف نگاہ کو آلودہ کرنے کی تکلیف سے کم ہے ۔غرض نفس کو نگاہ سے روکنے کی تکلیف تو ہوتی ہے مگریہ روک لینا اِختیار میں ہے۔ اگر اپنے اِختیار سے کام لیا جائے اَور اِس تھوڑی سی تکلیف کو گوارہ کر لیا جائے تو شیطان اَخیر تک نہیں پہنچا سکتا۔