ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2012 |
اكستان |
|
کچھ اَحادیث بھی پیش کرتے ہیں۔ اِس لیے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اُن آیات و اَحادیث ِپاک کے صحیح معانی اَور اُن کا اَصل مطلب واضح کر دیں۔ بریلویوں کے قرآنِ پاک سے اِستدلال کا جواب : ٭ پہلی آیت : اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰئِکَتَہ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْاعَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔(سُورة الاحزاب : ٥٦)''اَللہ اَور اُس کے فرشتے نبی ۖ پر رحمت بھیجتے ہیں ۔اَے اِیمان والو! تم بھی اُن پر صلوٰة و سلام بھیجو۔'' اِس آیت سے صرف اِتنا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نبی علیہ الصلوٰة والسلام پر اپنی مخصوص رحمتیں نازل فرماتے ہیں اَور فرشتے حضور پرنور ۖکے لیے اللہ تعالیٰ سے دُعائِ رحمت کرتے ہیں (یعنی اے اللہ! اِن پر تو اپنی رحمتیں نازل فرما) لہٰذا اے اِیمان والو! تم بھی اِن پر صلوٰة و سلام بھیجو۔ اِس بات میں اِختلاف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جیسا کہ ہم پہلے واضح کر چکے ہیں۔ بریلویوں کا یہ قول کہ تمام عبادات میں صرف درُود شریف ایک ایسی عبادت ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ شریک ہیں تو یہ اُن کی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کیونکہ بندے درُود شریف یوں پڑھا کرتے ہیں اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مَحَمَّدٍ الخ جس کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ !حضرت محمد ۖ پر اپنی رحمت نازل فرما تو کیا اللہ تعالیٰ بھی اِسی طرح درُود شریف پڑھتے ہیں؟ یقینا اِس کا کوئی بھی قائل نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا خدا کوئی اَور تو ہے نہیں جس کے سامنے وہ یہ دُعا کرے کہ اے اللہ !اپنی رحمت محمد ۖ پر نازل فرما۔ دَرحقیقت یہ مغالطہ اِس لیے لگ گیا کہ لفظ صلوٰة کی نسبت اللہ تعالیٰ، ملائکہ اَور عام مؤمنین کی طرف کی گئی ہے جس سے یہ سمجھ لیا گیا کہ تینوں طرف نسبت کے وقت معنٰی ایک ہی رہیں گے حالانکہ یہ