ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2012 |
اكستان |
|
''رہا اِس (تمباکو) کا بدعت ہونا یہ کچھ باعث ِضرر نہیں کہ یہ بدعت کھانے پینے میں ہے نہ کہ اُمورِ دین میں۔'' ١ جناب اَحمد رضا خان صاحب کی اِس عبارت سے معلوم ہوگیا کہ وہی بدعت مضر ہے جو اُمورِ دین میں ہو اَور وہ بدعت جو دُنیاوی چیزوں میں ہو یعنی اُس کو کوئی شخص دینی کام سمجھ کر نہ کرے تو ایسی بدعت مضر نہیں ہے۔ یہیں سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں : (١) لغوی بدعت (٢) شرعی بدعت۔ لغوی بدعت ہر وہ چیز ہے جو نئی اِیجاد کی گئی ہو۔ شرعی بدعت صرف وہ نئی اِیجاد شدہ چیز ہے جسے دین اَور کارِ ثواب سمجھ کر کیا جائے اَور اُس کا ثبوت قرآن و سنت سے نہ ہو۔ حضور ۖ کا فرمان کہ '' ہر بدعت گمراہی ہے'' اِس سے بدعت ِشرعیہ مراد ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کا جواب : بریلوی حضرات کے اِستدلالات کی حیثیت مزید واضح کرنے کیلیے ہم حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کا ایک جواب نقل کرتے ہیں اَور زیر بحث مسئلہ میں وہی جواب ہم اپنے لیے مستعار لیتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ کسی منکرِ تقدیر نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کو خط لکھا اَور اپنے عقیدہ اِنکار ِتقدیر پر یہ دلیل پیش کی کہ قرآنِ پاک کی بعض آیات سے تقدیر کی نفی ثابت ہوتی ہے اِس لیے تقدیر کا عقیدہ رکھنا مسلمان ہونے کے لیے نہ ضروری ہے اَور نہ ثابت بلکہ تقدیر کا اِنکار ہی بعض آیات ِقرآنیہ کے موافق ہے تو حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة اللہ علیہ نے اُس کے اِس بے بنیاد شبہ کو دُور کرنے کی غرض سے یہ اِرشاد فرمایا : ١ اَحکامِ شریعت حصہ سوم ص ١٦٨۔