ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2012 |
اكستان |
|
''احسان'' و '' تصوف'' : یہاں آقائے نامدار ۖ سے اُس آنے والے نے یہ سوال کیا فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَانْ اِحسان کے بارے میں مجھے بتلایئے کہ اِحسان کسے کہتے ہیں ؟ اَب قرآنِ پاک میں بھی آیا ہے یَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہ ۔ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَة ۔ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ تو اِحسان کرنے والو! اَچھائی کرنے والو! ۔تو یہ بات تو صحابہ کرا م جانتے تھے۔ آنے والے جو صاحب تھے اُنہوں نے جو دریافت کیا وہ اَور الفاظ سے دریافت کر رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اِحسان بتلائیے اِحسان کسے کہتے ہیں یہ بھی میں پوچھنا چاہتاہوں تو آقائے نامدار ۖ نے اُس کا جواب دیا اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ خدا کی عبادت اِس طرح کرو کہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو لیکن یہ تصور بہت مشکل ہے کہ اللہ کو ہم دیکھ رہے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ پاک ہے بہت زیادہ بلند و بالا ہے ہمارے تصورات سے ،اللہ تعالیٰ شکل سے منزہ ہے اَور تمام خوبیوں سے متصف ہے تمام عیبوں سے پاک ہے اِجمالاً تصور کیا جاسکتا ہے اَور کچھ اِس کو صوفیائے کرام بتلاتے ہیں سکھلاتے ہیںجیسے اَنبیائے کرام سے اُنہیں پہنچا اَور اُسی کو وہ تصوف کی تعلیم کا آخری درجہ(اَور سبق گردانتے ہیں) اَور (دُوسری طرف)خداکی عنایات کا تو کوئی درجہ ہی نہیں مقرر کیا جا سکتا وہ تو چلتی رہتی ہیں عمر بھر، یہ(تصوف) تو ایسے ہے جیسے کوئی نصاب ہو، کوئی کورس پڑھا جائے اُس کی تعلیم کا آخری درجہ یہ (احسان)ہے اُس کے بعد وہ اپنے علم کو کتنا بڑھاتا ہے یا خداوندی عنایات کتنی اُس پر ہوتی ہیں یہ اَلگ چیز ہے۔ اِحسان کی پہلی صورت : تو سرور ِکائنات علیہ الصلوة والسلام نے اِرشاد فرمایا اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ کہ اللہ کی ایسے عبادت کرو کہ گویا تم اُسے دیکھ رہے ہو ،یہ نہیں فرمایا کہ دیکھ رہے ہو ١ حضرت مجدد صاحب کا ایک جملہ ملتا ہے اُن کے مکتوبات میں بڑا اَچھا ہے وہ یہ کہ حق تعالیٰ کی ذاتِ پاک جو ہے وہ وَراء ُالوراء ١ بلکہ گویا کہ دیکھ رہے ہو یعنی فرض کرنا ہے کہ جیسے دیکھ رہے ہیںکیونکہ حقیقی رؤیت ناممکن ہے۔(محمود میاں غفرلہ)