ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2012 |
اكستان |
|
مِل رہا ہے جو کچھ آپ کر رہے ہیں سب کا ثواب اُتنا ہی اُن کو مِل رہا ہے اَور جن جن کے ذریعے جو جو تعلیم پہنچی ہے اُن کو بھی مِل رہا ہے بغیر اِس کے کہ کم ہو یعنی یہ اللہ کے دینے کا ایک طریقہ ہے یہ نہیں ہے کہ یہ حساب ہے کوئی بلکہ بِلا حساب ہے، دینے کا ایک طریقہ ہے بس۔ لیکن گناہ ،گناہ کا بھی یہ ہے کہ وہ سبب بنتا ہے ایک دُوسرے کو دیکھ کر گناہ کرتے ہیں نقل کرتے ہیں سیکھتے ہیں آمادہ ہوتے ہیں تو وہ بمنزلِ اُستاذ شاگرد کے ہوتے جا رہے ہیں اُن میں بھی یہ چلے گا تو یہ کھاتے کُھلے ہوئے ہیں اگر چہ اُس کو مرے ہوئے کئی ہزار سال ہو گئے ہیں جس نے پہلا قتل کیا تھا اَور اُس کے علاوہ جنہوں نے نیکیوں کی بنیادیں رکھی ہیں اُنہیں بھی ہزاروں سال ہوگئے ہیں لیکن نیکی والوں کو نیکی کا برائیوں والوں کو برائی کا(حصہ) مِل رہا ہے تو حق تعالیٰ اِس سارے حساب کو جو مسجد اَب بناگئے جنہوں نے یہ مسجد بنائی ہے جو پڑھ رہے ہیں نماز جب تک مسجد ہے اَور مسجد قیامت تک ہے تو ثواب بھی قیامت تک رہے گا ۔اَب اِس کو ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ رکھ دیا ہے کہ قیامت آجائے گی سب چیزیں ختم اَور سب حسابات رُک گئے پھر دوبارہ اُٹھا کر(زِندہ کر کے) اُسی کے مطابق (کھاتہ)اُس کے ساتھ کر دیا جائے گا۔ دُعائے مغفرت کا فائدہ : اَور یہ بات کہ خود کچھ نہ کیا ہو یا کم کیا ہو اَور اَجر بہت ملے اُسے خدا کے یہاں، جب اُس کا حساب ہو رہا ہے قبر میں تو نیکیاں زیادہ نہیں ہیںلیکن جب اُٹھتا ہے قیامت کے دِن تو بہت نیکیاں ہوتی ہیںایسی مثالیں حدیث شریف میں آئی ہیں ۔ پوچھے گا خدا وند کریم مجھے اِتنا زیادہ ثواب کہاں سے مِل گیا یعنی یہ اُس کے اَنداز سے زیادہ ہے جو اُس نے کیا تھا تو جواب یہ ہوگا کہ بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِکَ لَکَ ١ یہ تمہارے بچے جو تھے بیٹا جو تھا وہ تمہارے لیے اِستغفار کرتا رہا ہے اُس سے اِتنا مِل گیا، ایک ہے خرچ کرنا اَور اُس کا ثواب بخش دینا، نماز پڑھنا اُس کا ثواب بخش دینا، روزے نفلی رکھنا اُن کا ثوب بخش دینا اِس سے تو نیکیاں اَور بھی زیادہ ہو جاتی ہیں۔ اَور ایک ہے فقط اِستغفار کرنا جیسے قرآنِ پاک ١ سنن اِبن ماجہ باب بر الوالدین رقم الحدیث ٣٦٦٠