ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2012 |
اكستان |
|
اِس کو سیکھنا پڑے گا ایسا نہ ہو کہ ہم بات وہ کریں جو لوگوں کے سر سے گزر جائے ہم تو حدیث سنا رہے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگوں سے اُن کی عقل مطابق بات کرو اَیسا نہ ہو کہ وہ اللہ اَور رسول کو ہی جھٹلادیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی عالم ہو سکتا ہے ؟ اُن سے پوچھا کہ علم کیا ہے تو فرمایا چار یا پانچ چیزیں ہیں فرمایا علم ہے فقہ حدیث کے لیے اَور ............. میڈیکل بدن کے لیے صحت طب ، اَور علم ہے وقت معلوم کرنے لیے .......... اَور اِنجینئر تعمیر کے لیے اَور نحو زبان دانی کے لیے گرائمر۔ آج کوئی عالم یہ تعریف کرے گا علم کی یعنی کتنی وسعت ہے ۔ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے کتاب میں لکھا ہے کہ دَورِ نبوت میں کیا کیا پایا جاتا تھا حضور ۖ کی مسجد نبوی میں اُس دَور کی ساری ضرورت کے علوم علمِ ہیئت بھی تھا وقت معلوم کرنے کے لیے، معاشرت بھی تھی کہ مسلمان کس طرح رہے اپنے معاشرے میں ،اِکنامکس بھی تھی کہ حرام سے بچتے ہوئے تجارت کیسے کریں،عسکری کہ تیر نا تیر اَندازی یہ بھی تھا پھر دَور خلفائے راشدین نے سارے علوم کو سمو لیا تھا قرآن کے ساتھ پھر نو سو سال تک دُنیا میں علم کا اِمام مسلمان تھا چاہے دُنیاوی علوم ہوں یا دینی علوم ہوں۔ آج یورپ اَور امریکا تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ ہمارے مدرسے ہماری دینی ضرورتیں بھی پوری کرتے تھے اَور دُنیاوی ضرورتیں بھی پوری کرتے تھے ہمیں دُنیاوی ضرورتوں کے لیے کسی یونیورسٹی کے لیے باہر نہیں جانا پڑتا تھا یہی ہمارے مدرسے تھے بہترین عالم خطیب مفتی مصنف محقق پیدا کرتے تھے اَور یہاں سے البیرونی جیسا سائنسدان نکل پڑا، ابن خلدون جیسا مؤرخ نکلتا تھا جس کا مقدمہ آج یورپ اَور امریکا کی یونیورسٹیوں میںپڑھا یا جاتا ہے تاریخ کو اُس نے علم بناد یا ۔ابن سینا جیسا طبیب نکلتا تھا مغرب میں جو میڈیکل ہے طب ہے اُس کی کامیابی صرف سرجری ہے باقی اُن کے یہاں لمبی لسٹ ہے لاعلاج بیماریوں کی اَور سرجری کی بنیاد ہے ''القانون'' ابن سینا کی وہ سارے آپریشن کے اَسلحہ بھی اَور ہتھیار بھی اُس نے بنا کر بتلائے۔ تو دین اَور دُنیا کی ہم مسلمان کبھی بھی پوری تاریخ میں کسی دُنیاوی علم کو سیکھنے کے لیے غیر کے پاس نہیں گئے یہ ہماری بنیاد ہے۔ تو ہم اِس طرح پر بنیں کہ یہاں سے جو علم آپ حاصل کر رہے ہیں اُس کو اللہ تعالیٰ علم نافع