ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2012 |
اكستان |
|
دُر مختار حنفی فقہ کی وہ مایہ ناز کتاب ہے جس کی تعریف بریلویوں کے اِمام جناب اَحمد رضا خان صاحب نے بایں اِلفاظ کی ہے۔ ''دُر مختار بحر علم کی وہ دُر مختار ہے کہ جب سے تصنیف ہوئی مشارق و مغارب اَرض میں فتوائے مذہب ِحنفی کا گویا مدار اِس کی تحقیقات ِعالیہ و تدقیقات ِغالبہ پر ہوگیا۔'' ١ بہرحال حدیث ِپاک سے اَور فقہ حنفی سے ثابت ہوگیا کہ شریعت کا اُصول یہ ہے کہ :''ایسے تمام اُمور میں توقف کیا جائے گا جن کا واضح اَور صاف حکم قرآن و سنت میں ہمیں نہ ملتا ہو۔'' لہٰذا بریلوی حضرات کا یہ کہنا باطل ہوگیا کہ جس کا حرام ہونا قرآن و سنت میں مذکور نہ ہو ایسی تمام چیزیں اَور ایسے تمام کام حلال ہیں۔ اِس اُصول کے باوجود جو ہم اَبھی ثابت کر چکے ہیں ہم کہتے ہیں کہ ''میلادکی مروجہ محفل'' اُن اُمور میں داخل نہیں ہے جن کا حکم قرآن و سنت سے معلوم نہیں ہوتا بلکہ اِس کے بارے میں شریعت کا وہ اُصول ہے جو پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ :''ہر وہ کام جو کارِ ثواب سمجھ کر کیا جائے اَور قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو ایسا کام شریعت کی اِصطلاح میں'' بدعت'' کہلاتا ہے جس کے بارے میں حضور ۖ کا یہ اِرشاد گزر چکا ہے کہ کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَة (ہر بدعت گمراہی ہے)۔'' ٢ اَلبتہ وہ نیا کام جو دین سمجھ کر اَور کارِ ثواب سمجھ کر نہ کیا جائے وہ شریعت کی اِصطلاح میں بدعت نہیں کہلاتا گو لغوی طور سے وہ بھی ایک بدعت (نئی اِیجاد)ہے لیکن محض نو اِیجاد ہونا مضر نہیں ہے۔ بریلوی حضرات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ بدعت وہی مضر ہے جو دین کے کاموں میں ہو، چنانچہ بریلویوں کے اِمام جناب اَحمد رضا خان صاحب تمباکو کو حلال قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں : ١ فتاویٰ رضویہ ج سوم ص ٤٠١۔ ٢ مشکوٰة شریف ص ٣٠ ، اَبو دائود ج ٢ ص ٢٧٩ ، ترمذی ج ٢ ص ٩٢ ، اِبن ماجہ ص ٥۔