ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2010 |
اكستان |
|
دُوسری سے تائید اَورتقویت ہوتی ہے اَورمحدث حافظ ابوفضل عراقی رحمہ اللہ کے بقول تواِس کی بعض سندیں اِمام مسلم کی شرائط پر پوری اُترتی ہیں لہٰذایکطرفہ طورپر اِس حدیث کو بالکل موضوع قرار دے کر اِنکار کرنا صحیح نہیں ۔ اَلبتہ اِس سلسلہ میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ کوئی فرض ، واجب یا سنت عمل نہیں ہے بلکہ صرف دُنیاوی برکت کے بارے میں ایک عمل ہے اگر کوئی یہ عمل نہ بھی کرے تب بھی کوئی گناہ نہیں ۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ جو یہ عمل نہ کرے وہ تمام سال بے برکتی میں مبتلا رہے گا لہٰذا اِس عمل میں حد سے آگے بڑھنا مثلاً اِس کو ضروری فرض واجب سمجھنا یا اِس کے ساتھ فرض وواجب جیسا معاملہ کرنا، اِس کی ایسی پابندی کرنا کہ لوگ اِس کو لازم ضروری یا سنت سمجھنے لگیں یااِس کے لیے اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرنا، فضول خرچی کرنا یا اِس کے لیے قرض لینا اَور کسی خاص قسم کے کھانے (مثلاً کھیچڑ، کھیر ،حلیم وغیرہ)کو مخصوص لازم کرنا، اِس کو اِتنا بڑھانا کہ ہر علاقہ اَورمحلہ والوں کو اِس میں شامل کرنے کا اہتمام واِلتزام کرنا اَوربڑی بڑی دیگیں اُتارنا یہ تمام چیزیں گناہ اَورشریعت پر زیادتی ہیں۔اِس قسم کی خرابیوں کے ساتھ اگر یہ عمل کیاجائے گا تو بجائے فائدے کے اُلٹا گناہ اَورنقصان ہوگاکیونکہ گناہ سے بجائے برکت کے اُلٹی بے برکتی ہوتی ہے ۔ لہٰذا نیک اعمال کرنا اَور گناہوںسے بچنے کا اہتمام کرنا اِس کشادگی وفراخی والے عمل سے زیادہ ضروری اَور اہم ہے، نہ یہ کہ کھانے پکانے کا تو بہت اہتمام کیا جائے اَور نماز ، زکٰوة، قربانی وغیرہ جیسے بڑے احکام سے غفلت اِختیار کی جائے جیسا کہ عام طورپرآج کل ہو رہا ہے۔ اِسی سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جوشخص اِس دِن اِس عمل میں حد سے آگے بڑھے گا یا کسی قسم کا کوئی گناہ کرے گا (جیسا کہ آج کل بے شمار گناہوں کا دَوردَورہ ہے ) تو باوجود اِس وسعت اَور فراخی والے عمل کو اَنجام دینے کے پھر بھی بے برکتی میں مبتلاء ہونے کا قوی اَندیشہ ہے۔