ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2010 |
اكستان |
|
بے فروغ ہے اَور اقبال اِس جرم کے مرتکب نہیں ہو سکتے تھے۔ حضرت اَقدس کے عشاق اَور تلامذہ محض اِظہار ِحقیقت کے طور پر آںجناب کو مدنی کے لقب سے یاد کرتے تھے اَور آج بھی یاد کرتے ہیں اَور بجا طور پر، کیونکہ حضرت اَقدس کی زندگی کا بڑا حصہ مدینتہ النبی ۖ میں بسر ہوا، ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ۔ یہ رُتبۂ بلند مِلا جس کو مل گیا ہر مدعی کے واسطے دار و رَسن کہاں یہ تو حضرت اقدس کی رُوحانی عظمت کی دلیل ہے کہ آپ خود ساری عمر اپنے آپ کو ''ننگ ِاسلاف'' لکھتے رہے اور دُنیا آپ کو ''مدنی'' کہتی رہی اَور اِنشاء اللہ کہتی رہے گی۔ ہرگز نمیرد آنکہ دِلش زندہ شد بعشق ثبت اَست برجریدئہ عالم دوامِ شیخ ١ قارئین ِکرام سے اِس اعراض عن الموضوع کی معافی چاہتا ہوں۔ یہ سطور بے اختیار نوکِ قلم پر آگئیں۔ بعض اوقات ایسے مواقع پیش آ جاتے ہیں کہ دِل پر اِختیار باقی نہیں رہتا۔ اَب میں اِس واقعہ کی تفصیل سپرد ِقلم کرتا ہوں۔ یعنی دگر اَز سر بگیرم قصۂ زُلفِ پریشاں را ٨ جنوری ١٩٣٨ء کی شب میں حضرت اَقدس مولانا مدنی نے صدر بازار دہلی متصل پل بنگش ایک جلسے میں ایک تقریر فرمائی جس کا بڑا حصہ ٩ جنوری کے ''تیج'' اَور ''انصاری'' دہلی میں شائع ہوا۔ چند روز کے بعد ''الامان'' اَور ''وحدت'' دہلی نے اِس تقریر کو قطع وبرید کے بعد اپنے صفحات میں جگہ دی۔ اِن پرچوں سے ''زمیندار'' اَور ''اِنقلاب'' لاہور نے اِس تقریر کو نقل کیا اَور یہ جملے حضرت اقدس کی طرف منسوب کر دیے کہ حسین احمد دیو بندی نے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ چونکہ اِس زمانے میں قومیں وطن سے بنتی ہیں مذہب سے نہیں بنتیں اِس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ بھی اپنی قومیت کی بنیاد وطن کو بنائیں اَوْ کَمَا قَالَ جب یہ اخباری اطلاع علامہ اقبال کے کان میں پڑی تو اُنہوں نے حضرت اقدس سے استفسار یا تحقیق کیے بغیر یہ تین اشعار سپرد ِقلم کر دیے۔ ١ اشارہ بجانب شیخ الاسلام حضرت مولانا مدنی قدس سرہ العزیز