ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2010 |
اكستان |
|
سفر نامہ ........ چھ دِن مراکش میں ( جناب مولانا ضیاء المُحسن صاحب طیّب،برمنگھم، فاضل جامعہ مدنیہ لاہور ) مراکش کا نام میں نے آج سے تیس سال پہلے ١٩٧٥ ء میں سنا تھا جب میری عمر تقریبًا دس سال کے لگ بھگ تھی میںاُس وقت میرپور آزاد کشمیر تبلیغی مرکز میں حفظ قرآن کا طالب علم تھا۔ تبلیغی مرکز میں آئے روزجماعتوں کی آمد و رفت رہتی تھی ایک روز لمبے چوغے گورے چٹے دَراز قد ہنس مکھ چہروں والے نوجوانوں کی ایک جماعت آئی تو پتہ چلا کہ یہ جماعت مراکش سے آئی ہے۔ وہ اُردو زبان سے نابلد اَور ہم عربی زبان سے ناواقف، ہم طالب علم اشاروں کنایوں میں اُن سے باتیں کرتے اُن کے پاس بیٹھتے وہ ہم سے قرآن کی تلاوت سنتے کھانے میں ہمیں اپنے ساتھ شریک کرتے وہ لوگ ہمیں بہت اچھے لگے۔ اُس وقت ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا زندگی میں کبھی مراکش جانے کا بھی اِتفاق ہوگا۔ مگر اِنسان نے زندگی کے اِس سفر میں کہاں کہاں کا سفر کرناہے اُس کو نہیں معلوم۔ ٢٠ نومبر ٢٠٠٦ء کو ہم تین احباب ڈاکٹر اَخترالزمان نوری، مولوی آفتاب احمد اَور راقم الحروف مراکش کے لیے روانہ ہوئے۔ مراکش کے لیے اَبھی تک برمنگھم سے فلائٹوں کا سلسلہ شروع نہیں ہوا اِس لیے ہمیں لوٹن سے فلائٹ لینی تھی فلائٹ کا وقت صبح سات بجے تھا جس کا مطلب تھا ہمیں کم اَز کم صبح پانچ بجے لوٹن ائیر پورٹ پر ہونا چاہیے اَور یہ اُسی وقت ممکن تھا جب ہم صبح تین بجے برمنگھم سے نکلیں، نومبر کی سرد اَور یخ بستہ راتوں میں صبح اُٹھنااَور سفر کے لیے روانہ ہونا ایک مشکل اَور تکلیف دہ کام تھا۔ مولوی آفتاب صاحب کے کلاس فیلو اَور باغ و بہار شخصیت کے مالک جناب مولانا چوہدری ناصر اَحمد لوٹن میں رہائش پزیر ہیں اُن سے بات ہوئی تو اُنہوں نے ہمیں دعوت دی کہ آپ رات ہمارے یہاں قیام کریں ہم علی الصبح آپ کو ائیرپورٹ پرچھوڑ دیں گے اُن کی یہ تجویذ ہمیں پسند آئی چنانچہ ہم نماز ِ مغرب کے بعدبرمنگھم سے لوٹن کے لیے روانہ ہوگئے لوٹن کے دوستوں نے ہمارے لیے بڑی پُرتکلف دعوت کا اِنتظام کر رکھا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد رات گئے تک اُن سے خوب گپ شب رہی۔ صبح پانچ بجے مولانا چوہدری