ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2010 |
اكستان |
|
مگر اَفسوس ہے کہ ہزاروں کی جگہ سینکڑوں بھی نہیں بلکہ اِتنے بھی نہیں جتنے کہ دُنیا کے لیے سکھلائے جاتے ہیں۔ آخرت کے بارے میں لڑکیوں کو بالکل آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اِس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ عورتوں کو ایسی دینی کتابیں پڑھائے جن میں اُن کی دینی ضروریات کولکھا گیا ہے اَور اُن کو تھوڑا تھوڑا پڑھائیے اُن کے ہاتھ میں کتاب دے کر بے فکر نہ ہو جائیے۔ عورتیں اکثر کم فہم ہوتی ہیں یا تو کتاب کے مطلب کو سمجھیں گی نہیں یا کچھ کا کچھ سمجھ لیں گی۔ اِس کا سہل طریقہ یہ ہے کہ ایک وقت مقرر کر کے گھر کا کوئی مرد عورتوں کو جمع کر کے وہ کتابیں پڑھایا کرے یا اگر وہ پڑھ نہ سکتی ہوں تو اُن کو سنایا کرے۔ مگر صرف ورق گردانی نہ ہو اَور محض پڑھنے سے مسئلہ یاد نہیں رہتا بلکہ اِس پر عمل کرنے سے خوب ذہن نشین ہوتا ہے۔اگر کوئی عورت پڑھی ہوئی میسر ہو جائے تو وہی کتاب لے کر دُوسری عورتوں کو پڑھائے یا سکھائے بہر حال کوئی صورت ہو مگر اِس سے غفلت نہ ہونی چاہیے۔ گھر والوں کو دینی کتابیں سنانے کا معمول : دینی کتابیں اپنے گھر والوں کو سنائو۔ زیادہ نہ ہو تو پندرہ بیس منٹ ہی سہی اَور یہ نہ دیکھو کہ کون سنتا ہے کون نہیں، کوئی سنے یا نہ سنے مگر تم اپنا کام کیے جائو۔ گھر میں پڑھانا شروع کرو اَور روز سنایا کرو اُٹھ کر نہ آئو۔ خواہ بِگڑ پڑیں۔ بہت لوگوں نے بیان کیا کہ کتابیں سناتے سناتے اِصلاح ہو گئی۔ کیا اللہ و رسول کا کام کھٹائی سے بھی کم ہے؟ کھٹائی کا منہ میں اَثر ہو جو ایک حقیر چیز ہے۔ اِس سے تو منہ میں پانی بھر آئے اَور اللہ و رسول کے نام کا اَثر نہ ہو۔ مگر یہ بات ہے کہ کرے کون کون دِقت اُٹھائے۔ اَلغرض کتاب سنانے کو روز مرہ کا وظیفہ سمجھئے اَور کچھ نہیں چار ہی ورق سہی دو ہی سہی جیسے قرآن شریف کی تلاوت کیا کرتے ہو اِسی طرح دو وَرق اِس کے بھی پڑھ لیے یا سُن لیے ،اگر پوری عمر بھی اِس میں لگا رہنا پڑے تب بھی ہمت کرنا چاہیے۔ جب دُنیا کی دُھن ہے تو دین کی کیوں نہ ہو۔ (جاری ہے )