ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2010 |
اكستان |
|
کا نکاح آنحضرت ۖ سے کردیا فَتَبَارَکَ اللّٰہُ لِرَسُوْلِ اللّٰہ ۖ اِس کے بعد خالد بن سعید رضی اللہ عنہ نے مہر والے دینار لے لیے اَور حاضر ین اُٹھ کرچلنے لگے ۔ نجاشی نے کہا اَبھی ٹھہرو کیونکہ نبیوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ نکاح کے بعد کچھ کھایا جائے۔یہ کہہ کر نجاشی نے کھانا منگایا اَور حاضرین ِمجلس نے کھایا اِس کے بعد چلے گئے۔ یہ ٧ھ کا واقعہ ہے اَور بعض نے ٦ھ کا بتایا ہے۔ حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی تھیں کہ جب مہر کی رقم میرے پاس آ گئی تو میں نے اِس میں سے پچاس دینار اَبرہہ باندی کو اَور دے دیے، اُس نے یہ کہہ کر واپس کر دیے کہ بادشاہ نے قبول کرنے سے منع کر دیا ہے اَور اِس سے پہلے جو چیزیں میں نے اُسے دی تھیں وہ بھی واپس کردیں۔( البدایہ والاصابہ ) جب اِس نکاح کی خبر حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو پہنچی جو اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے تو اپنی ہار مان گئے چونکہ اُس وقت تک آنحضرت ۖ سے لڑتے تھے اَور مشرکین ِمکہ کو آنحضرت ۖ سے لڑانے میں بہت پیش پیش تھے اَور اِسلام اَور داعی ٔاِسلام کا نام تک مٹا دینا چاہتے تھے اِس لیے اِن کو یہ کہاں منظور ہوتا کہ اِن کی بیٹی آپ ۖ کے نکاح میں جائے۔ نکاح کی خبر سن کریوں بول اُٹھے ھُوَالْفَحْلُ لَایُجْدَعُ اَنْفُہ (محمد رسول اللہ ۖ جو اںمرد ہیں اِن کی ناک نہیں کاٹی جا سکتی )یعنی وہ بلندناک والے عزت دار ہیں ہم اِن کو ذلیل نہیں کر سکتے اُدھر تو ہم اِن سے لڑ رہے ہیں اِدھر ہماری لڑکی اِن کے نکاح میں چلی گئی، اِس کہنے کا مقصد اپنی ہارمان لینا تھا۔ حبشہ سے مدینہ منورہ پہنچنا : نکاح کے دُوسرے روز نجاشی نے حضرت اُمِ حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس خوشبو اَور جہیز کا سامان بھیجا اَور حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا کو مدینہ منورہ پہنچوا دیا۔وہاں پہنچ کر وہ آنحضرت ۖ کی خدمت میںرہنے لگیں اَور اِن کا مبارک خواب جس میں کسی نے یَا اُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ کہہ کر پکارا تھا صحیح ثابت ہوا۔(البدایہ و الاصابہ) آنحضرت ۖ کا احترام : حضرت اُمِ حبیبہ رضی اللہ عنہا سید عالم ۖ کا بہت اعزاز و احترام کرتی تھیں۔ جب مدینہ منورہ پہنچ گئیں تو اِن کے والد مکہ سے مدینہ پہنچے اُس وقت وہ کافر تھے اَور مشرکین ِمکہ کی طرف سے صلح حدیبیہ کے