ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2010 |
اكستان |
|
قسط : ٤ اَنفَاسِ قدسیہ قطب ِ عالم شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمدصاحب مدنی کی خصوصیات حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب بجنوری فاضل دارُالعلوم دیوبندو خلیفہ مجاز حضرت مدنی کارِ مشائخ اَور اِسلامی سیاست : جس وقت آنحضرت ۖ کا وصال ہوا اُس وقت ملک عرب کی عجیب و غریب حالت تھی۔ آنحضرت ۖ کے وصال کا صدمہ جانکاہ ایسا تھا کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اعلان کر دیا تھا کہ اگر کسی نے بھی آنحضرت ۖ کو یہ کہا کہ وہ مر گئے ہیں تو اُس کی گردن اُڑا دُوں گا۔ ساتھ ہی ساتھ قبائلِ عرب مرتد ہونے لگے تھے اَور دُشمن ممالک نے مدینہ منورہ کی طرف ٹیڑھی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ بیہقی اور ابن ِعساکر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ''قسم ہے وحدہ لا شریک لہ کی اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ نہ ہوتے تو رُوئے زمین پر کوئی خدا کی عبادت نہ کرتا۔'' اِسی طرح آپ نے تین مرتبہ کہا۔ لوگوں نے کہا اے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اَیسا کیوں کہتے ہو؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ ۖ نے اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو لشکر دے کر شام کی طرف روانہ کیا تھا اَبھی اُسامہ رضی اللہ عنہ نے ذی خشب میں ہی پڑائو کیا تھا کہ نبی کریم ۖ کا اِنتقال ہو گیا اَور حوالی مدینہ کے عرب مرتد ہو گئے۔ صحابہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اَور عرض کیا کہ آپ اِس لشکر کو واپس بلا لیجئے ممکن ہے کہ یہاں ضرورت لاحق ہو۔ ہر ایک نے مختلف رائے دی، آخر میں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا قسم ہے وحدہ لا شریک کی اگر پیغمبر خدا ۖ کی بیوی کے پائوں کُتے کھسیٹیں تو جس لشکر کو رسول خدا ۖ نے بھیجا ہے ہرگز نہ لوٹائوں گا اَور جس جھنڈے کو خود رسول اللہ ۖ نے باندھا ہے اُس کو کبھی نہ کھولوں گا۔ پس آپ نے اُسامہ رضی اللہ عنہ کو بھیج دیا۔ حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ راستے میں جس قبیلے پر ہو کر گزرتے تھے اَور وہ قبیلہ