ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2010 |
اكستان |
|
اِسلامی سیاست : ملکی معاملات میں غور و فکر اَور حسن تدابیر سے کام کرنا بشرطیکہ حدودِ شریعت پامال نہ ہوں اَور حدود اللہ کا قیام عمل میں آئے میرے نزدیک یہ اِسلامی سیاست ہے۔ حضرت شیخ الہند نے اپنے خطبہ صدارت میں صاف فرما دیا تھا کہ ہم سیاست میں مذہب کے لیے داخل ہوئے ہیں۔ آپ کا منشاء آزادیٔ وطن کے ساتھ تحفظ خلافت تھا اَور قیامِ خلافت اُصول دین میں سے ہے۔ ہمارے نزدیک قیام خلافت کے علاوہ کسی اَور ذریعہ سے رُوئے زمین پر مساوات اَور اَمن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ قیامِ خلافت کا خلاصہ اِطاعت ہے کہ ہر چھوٹا بڑے کی اِطاعت کرے۔ یورپ نے اِس فلسفہ ٔسیاست کو ختم کرنے کے لیے حریت رائے کا فلسفہ دیا اَور صلیب و ہلال کے معرکوں میں جب صلیب کو شکست ہوئی تو یورپ نے خالص عقلی بنیادوں پر اِسلام کا مقابلہ کیا اَور اِس معاملہ میں اُس کو بڑی حد تک کامیابی نصیب ہوئی۔ حضرت شیخ الہند، سید بھائیوں اَور حضرت شیخ الاسلام نے اِس کو اچھی طرح محسوس کیا اَور انگریزوں کے مقابل صف آرائی شروع کر دی۔ اِن حضرات کا منشا اَولاً یہ تھا کہ اگر ہندوستان سے اَنگریز نکل جاتا ہے تو اُس کو ایشیا سے نکلنا پڑے گا اَور تمام مسلم ممالک آزاد ہو جائیں گے۔ نہر سوئز پر مسلمانوں کا قبضہ ہوتے ہی مشرق مغرب پر غالب آ جائے گا اَور پھر وحدتِ کلمہ کی بنیاد پر اِن ممالک کو ایک رشتہ میں پرویا جا سکتا ہے اَور یہ ایک کامیاب فلسفہ تھا۔ لیکن یورپ کا دماغ بھی اِس کا تعاقب کر رہا تھا اُس نے بین الاقوامی طور پر فلسفہ قومیت کو شروع کر دیا اَور اِس وجہ سے شروع کیا کہ اگر یہ فلسفہ ہندوستان میں کامیاب ہو گیا تو ہندوستان کی آزادی کھٹائی میں پڑ جائے گی اور پھر دیگر ممالک بھی آزاد نہ ہو سکیں گے۔یہ فلسفہ صرف ہندوستان ہی میں چھیڑا جا سکتا تھا کیونکہ دیگر ممالک میں مسلم اَور غیر مسلم کا سوال ہی نہیں تھا۔ حضرت شیخ الاسلام نے سیاسی سطح پر اِس فلسفہ سے اختلاف کیا۔ لیکن علامہ اِقبال اَور دُوسرے لوگوں نے اِس کو مذہب کے چشمہ سے پڑھا اور اِس پر تنقید شروع کر دی اَور پھر یہ مسئلہ مسلم لیگ کو جنم دینے والا بنا۔ ہمارے نزدیک یہ لوگ سطحیات پرست تھے اَور ظواہر کے دِلدادہ تھے۔ حضرت نے جب یہ فرما دیا کہ میرا یہ قول اَز قبیل خبر ہے نہ کہ اَز قبیل اِنشاء تو علامہ اقبال نے سکوت اِختیار فرمایا لیکن بعد اَز خرابی ٔبسیار مسلم لیگ جنم لے چکی تھی اَور انگریزوں کا حربہ کار گر ثابت ہو چکا تھا۔ بہر حال حضرت شیخ الاسلام کی دُور بین نظر آزادیٔ ہند کے