ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2010 |
اكستان |
|
دُنیا میں اِنسانی مساوات کا جو تصور اِسلام نے پیش کیا ہے اُس سے بہتر اَور مؤثر کوئی تصور پیش نہیں کیا جاسکتا۔ ظلم کی ممانعت : اِسلام بنیادی طور پر ظلم کا مخالف ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اِسلام کا وجود ہی دُنیا سے ظلم کو مٹانے کے لیے ہوا ہے ۔اِسلام کی فطرت یہ ہے کہ وہ ظلم کو برداشت نہیں کر سکتا، پورا اِسلامی نظام ہر سطح پر ظلم کو ختم کرنے کے لیے مستعد رہتا ہے۔ اِسلام کا اُصول ہے لاضرر ولاضرار (یعنی نہ نقصان اُٹھاؤ اَور نہ نقصان پہنچاؤ) یہی اصول اِسلام کی ہر تعلیم میں روشن نظر آتا ہے اِسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ آدمی جہاں تک بھی ہوسکے اپنی قوت اَور اَثرات کا استعمال کرکے مظلوم کی حمایت کرے اَور ظالم کا ہاتھ پکڑلے۔ حضرت اَنس رضی اللہ عنہکی روایت ہے کہ آنحضرت ۖنے فرمایاکہ اپنے بھائی کی مدد کر و خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم، تو ایک شخص نے حیرت سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ۖ !مظلوم ہو نے کی حالت میں تو اُس کی مدد کروںگا اگر وہ ظالم ہے تو اُس کی مدد کیسے کروں؟ تو آپ ۖنے فرمایا کہ ظالم بھائی کی مدد اِس طرح ہوگی کہ تم اُس کو ظلم سے روک دو (تاکہ وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے)۔(متفق علیہ ، مشکوة شریف ٢/٤٢٢) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آنحضرت ۖنے فرمایا کہ ظلم کرنا آخرت میں اَندھیریوں کا باعث ہو گا۔ (مشکوةشریف٢/٤٣٤) ایک روایت میں آپ ۖنے اِرشاد فرمایا کہ مظلوم کی بد دُعا سے بچتے رہو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنا حق مانگتا ہے اَور اللہ تعالیٰ کسی حق دار کو اُس کا حق دینے سے محروم نہیں کرتا۔ (مشکوة شریف ٢/٤٣٦) احادیث ِشریفہ میں خلق ِخدا پر رحم کرنے اَور اُن کے ساتھ مہربانی کا برتاؤ کرنے کی اِنتہائی تاکید وارِد ہوئی ہے، ایک روایت میں آنحضرت ۖنے اِرشاد فرمایا کہ ''مہربانی کرنے والوں پر رحمن مہربان ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔'' (مشکوة شریف ٢/٥٢٣ ، رواہ ابو داؤد) ایک روایت میں آپ ۖنے اِرشاد فرمایا کہ جوشخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ بھی اُس پررحم نہیں کرتا ہے۔ (مشکوة شریف ٢/٤٢١)