ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2010 |
اكستان |
|
علامہ اقبال کی خدمت میں بد قسمتی یا خوش قسمتی سے مجھے بھی ١٩٢٥ء تا ١٩٣٨ء قریب تیرہ سال تک حاضر ہونے کا موقع ملا۔ ایک آدمی کی ذہنیت اَور سیرت کا مطالعہ کرنے کے لیے یہ مدت کافی سے زیادہ ہے۔ میرا دِل نہیں مانتا کہ علامہ اقبال مرحوم اَخلاقی اعتبار سے اِتنے پست (فرومایہ) تھے کہ ایک مشہور و معروف عالم دین، شیخ الہند کے جانشین، دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث، لاکھوں مسلمانوں کے رُوحانی پیشوا اَور لاکھوں سر فروشوں کے سیاسی رہنما جس کے قدموں کو ١٩٢١ء میں رئیس الاحرار مولانا محمد علی جنت آشیانی نے بھری عدالت میں بوسہ دیا تھا جس نے ساری عمر مَلاعنہ فرنگ کے خلاف جہاد کیا، جس نے ساری عمر کلمہ حق کہا، جس نے گالیاں کھا کر دُعائیں دیں جس کی عظمت پر آج بھی مالٹا گواہی دے رہا ہے۔ کراچی، نینی، بریلی، فیض آباد، مراد آباد اَور خدا معلوم کتنے شہروں کی جیلیں آج بھی اُس کی آہ ِسحر گاہی اَور قرآن الفجر کی برکات سے مالا مال ہیں، جس نے ایک دو نہیں پورے چودہ سال تک حرمِ نبوی میں حدیث ِنبوی کا درس دیا۔ گردن نہ جھکی جس کی کسی شاہ کے آگے جس کے نفسِ گرم سے مُردوں میں پڑی جان جس کی علو ہمت کا ہی عالم تھا کہ اُس نے مَلاعنہ فرنگ کے خطابات درکنار، خود حکومت ِہند کے خطاب (پدم بھوشن) اَور طلائی تمغے دونوں کو یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ میں نے اپنے وطن کو کسی خطاب یا جاگیر حاصل کرنے کی نیت سے آزاد نہیں کرایا بلکہ اپنا فرض ادا کیا، انگریز میرا دشمن تھا، میرے وطن کا دُشمن تھا اَور سب سے بڑھ کر میرے دین کا دشمن تھا اِس لیے اِسے ختم کرنا میرا دینی فریضہ تھا۔ ایسے شخص کے لیے اقبال ایسا نا روا لفظ استعمال کرتے؟ اقبال فارسی دان تھے اِس لیے اِس لفظ کے (CONNOTATION) مفہوم سے واقف تھے اَور خود بہت شریف آدمی تھے اَور شریف کی پہچان یہ ہے کہ وہ دُوسروں کی توہین نہیں کیا کرتا، دشنام طرازی شریفوں کا شیوہ کبھی نہیں رہا۔ رہا ''خودرا مدنی خواند'' والا فقرہ، تو یہ بھی اقبال کے قلم سے نہیں نکل سکتا، کیونکہ وہ اِس حقیقت سے آگاہ تھے کہ حضرت اَقدس ساری عمر اپنے نام سے پہلے ''ننگ ِاسلاف'' لکھتے رہے۔ اُن کے ہزاروں خطوط آج بھی اُن کے شاگردوں، مریدوں، عقیدت مندوں اَور مداحوں کے پاس موجود ہیں۔ کسی خط میں حضرت نے اپنے اسم گرامی کے ساتھ لفظ ''مدنی'' کا اِضافہ نہیں فرمایا لہٰذا ''خودرا مدنی خواند'' خلاف ِحقیقت ہے یعنی دروغ