ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2010 |
اكستان |
|
ضرورت تھی کہ شاہ ولی اللہ کے زمانہ کا بلند کیا ہوا علم جہاد حریت سرنگوں نہ ہو۔ ضرورت تھی حضرت سید احمد شہید، حضرت اسماعیل شہید حضرت حافظ ضامن شہید وغیرہ شہدا وطن کے خون کا اِنتقام لینے کے لیے کوئی جانباز بہادر سر فروش جرنیل کمان ہاتھ میں لے اَور میدانِ جہاد میں برطانوی دیو استبداد کو للکارے کہ اے سامراجی درِندو! ملک کو خالی کر دو ملک کی زمین تمہارے نا پاک عزائم کو برداشت نہ کرے گی اَور تمہاری کرتوتوں کا تم سے بدلہ لے گی۔ چنانچہ ایسے نازک وقت میں حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی اَور حضرت مولانا محمود حسن صاحب کا سچا جانشین شہدا وطن کی رُوحوں کی پکار پر لبیک کہنے والا یہی متوالا مردِ مجاہد تھا جس کے فراق میں آج ہمارے سینے شق اَور آنکھیں پُرنم ہیں۔ اِس بے خوف مرد مجاہد، رشید و محمود کے چہیتے لاڈلے اَور سچے جانشین نے بھوکے شیر کی طرح برطانوی دیو پر حملہ کیا اَور ملک کو آزاد کرایا۔ چنانچہ نقش ِحیات میں خود ہی اُس زمانے کے حالات کا تذکرہ فرمایا ہے ملاحظہ فرمائیے : ''چونکہ خلافت اَور آزادی کی تحریک زوردں پر چل رہی تھی اَطراف و جوانب کلکتہ میں جلسے ١ ہو رہے تھے اُن میں بار بار حاضر ہونا پڑتا تھا اُس زمانہ میں اندرونِ بنگال بھی دُور دراز شہروں میں بڑے بڑے جلسوں میں جانا پڑا جن میں سے مولوی بازار کے مشہور جلسہ کانگریس و خلافت میں بھی جانے پر مجبور کیا گیا۔اجلاس کانگریس کے صدر مسٹر سی آر داس آنجہانی تھے اَور جلسہ خلافت و جمعیة کی صدارت مجھ کو اَنجام دینی پڑی تھی۔ دُوسرا جلسہ رنگ پور میں بڑے پیمانہ پر ہوا تھا دونوں کے خطبات چھپ کر شائع ہو چکے ہیں اِسی طرح دو مرتبہ ہندوستان یوپی میں بھی آنا پڑا ایک جلسہ سیو ہارہ ضلع بجنور کا تھا اُس جلسہ جمعیة کی صدارت حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب نائب مہتمم ١ جس وقت حضرت شیخ الہند بیمار تھے تو دہلی میں آپ کے پاس کانگریس کی طرف سے ایک جلسہ کے لیے دعوت نامہ موصول ہوا آپ نے حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی کے ہاتھ یہ کہلا کر بھیجا کہ جائو کہہ دینا کہ ہم سیاست میں مذہب کی وجہ سے شریک ہیں اَور مذہب کی وجہ سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ (ملاحظہ فرمائیے حیات شیخ الہند)