ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2010 |
اكستان |
دارالعلوم دیو بندنے فرمائی تھی اَور جلسہ خلافت کی خدمت ِصدارت مجھے اَنجام دینی پڑی تھی۔ اِس موقع پر کانگریس کا اِجلاس مشترک طور پر ہوا تھا اِس کے صدر دہرہ دون کے ایک پنڈت صاحب تھے میرا خطبہ اُس وقت بھی شائع ہوا تھا۔ اِن جلسوں کے خطبات کے ضروری اقتباسات حضرت مولانا محمد میاں صاحب ناظم جمعیة علماء ہند نے اپنے رسالے میں نقل کر دیے ہیں۔ اِسی طرح سہارنپور کے مدرسہ مظاہر العلوم کے سالانہ جلسہ میں بھی کلکتہ سے حاضر ہونا پڑا تھا۔ اِس کے بعد کراچی کے مشہور جلسہ میں حاضر ہونا پڑا جس پر کراچی کا تاریخی مقدمہ چلا اَور دو سال قید بامشقت کی عزت مجھے اَور مولانا محمد علی مرحوم اَور شوکت علی مرحوم وغیرہ میرے ساتھیوں کو حاصل ہوئی اَورکلکتہ کی ملازمت اِس کی وجہ سے ختم ہو گئی۔'' (نقش ِحیات ج ٢ ص ٢٧٣ ) اِس تحریر سے ظاہر ہے کہ لوگوں میں آزادی وطن کے لیے کس قدر بے چینی تھی، لوگ منتظر تھے کہ کوئی اُن کی صحیح رہنمائی کرے چنانچہ حضرت شیخ الاسلام نے ہندوستان کی صحیح رہنمائی کی اَور کانگریس میں داخل ہو کر عظیم قربانیاں دیں چنانچہ اِرشاد فرماتے ہیں : ''میں اگرچہ پہلے سے کانگریس میں شامل نہ تھا مگر مالٹا سے واپسی پر کانگریس کا ممبر باقاعدہ بن گیا اَور ہمیشہ جدوجہد ِآزادی میں شریک رہا اَور قید و بند کے مصائب بھی اہل ملک کے ساتھ ساتھ جھیلتا رہا۔ بفضلہ تعالیٰ اِس میں کامیابی ہوئی اَور انگریزوں کی غلامی سے تمام ہندوستان آزاد ہو گیا۔'' (نقش ِحیات ج ٢ ص ٢٧٣ ) غرض کہ ہمارے حضرت کی جنگ آزادی کی خدمات کسی سے کم نہیں ہیں بلکہ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ حضرت کے برابر کسی اَور مسلم لیڈر کی خدمات نہیں ہیں تو مبالغہ نہ ہو گا ١ بہر حال جس کام کو آپ کے مشائخ اَدھورا چھوڑ گئے تھے اُس کو آپ نے پورا کیا جس کے نتیجے میں آج ہندوستان و پاکستان ہی آزاد نہیں بلکہ مصر، شام، مراکش، سوڈان، غرض کہ پورا مشرق وسطیٰ اَور جزائر اِنڈونیشیا وغیرہ آزاد ہیں۔ ١ آپ سیاست میں حضرت مولانا ابو الکلام آزاد کے دست راست اَور اُن کی تجاویز کو عملی جامہ پہنانے والے تھے ۔