ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2010 |
اكستان |
ہے۔اَب اگر دُوسرا آدمی ہوتا ، اَور وہ اَب تک ضبط بھی کر رہا ہوتا تو اِس سوال کے بعد تو اُس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا لیکن قربان جائیں امام صاحب کے صبر پر، بہت اطمینان سے جواب دیا کہ اَگر اِنسان کی نجاست تازہ ہوتو اُس میں کچھ میٹھاس ہوتی ہے اَور اگر سوکھ جائے تو کڑواہٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ پھر وہ شخص کہنے لگا کہ کیاآپ نے چکھ کر دیکھا ہے؟ العیاذ باللہ ۔حضرت امام صاحب نے فرمایا ہر چیز کا علم چکھ کر حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ بعض چیزوں کا علم عقل سے حاصل کیا جاتا ہے اَور عقل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تازہ نجاست پر مکھی بیٹھتی ہے خشک پر نہیںبیٹھتی۔ اِس سے پتہ چلا کہ دونوں میں فرق ہے ورنہ مکھی دونوں پر بیٹھتی۔ جب امام صاحب نے یہ جواب دیا تو اُس شخص نے کہاامام صاحب میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ مجھے معاف کردیں میں نے آپ کو بہت ستایا۔ لیکن آج آپ نے مجھے ہرادیا۔ اِمام صاحب نے فرمایا کہ میں نے کیسے ہرادیا؟ اُس شخص نے کہا کہ ایک دوست سے میری بحث ہورہی تھے۔ میرا کہنایہ تھاکہ حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ علماء کے اَندر سب سے زیادہ برد بار ہیں اَور وہ غصہ نہ کر نے ولا بزرگ ہیں۔ اَور میرے دوست کا کہنا یہ تھاکہ سب سے زیادہ غصہ نہ کرنے والے بزرگ امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ ہیں۔ اَور ہم دونوں میں بحث ہوگئی اَب ہم نے آزمانے کے لیے یہ طریقہ سوچا تھا کہ میں اُس وقت آپ کے گھر پر آجاؤں جو آپ کے آرام کا وقت ہوتا ہے اَور اِس طرح دوتین مرتبہ آپ کو اُوپر نیچے دوڑاؤں اَور پھر آپ سے یہ بہودہ سوال کروں، اَور یہ دیکھوں کہ آپ غصہ ہوتے ہیں یا نہیں؟میں نے کہا کہ آپ غصہ ہوگئے تو میں جیت جاؤں گا اگر غصہ نہ ہوئے تو تم جیت جاؤگے۔ لیکن آج آپ نے مجھے ہرا دیا۔ واقعی رُوئے زمین پر ایسا حلیم اِنسان جس کو غصہ نے کبھی چھوا بھی نہ ہو آپ کے علاوہ کوئی دُوسرانہیں دیکھا۔ (ماخوذ اَز اِصلاحی خطبات مولانا تقی عثمانی ) سچ ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ اُن ہی لوگوں میں سے تھے جن کے بارے میں قرآنِ پاک میں اِرشاد ِ خدا وندی ہے : '' متقین وہ ہیں جو خرچ کرتے ہیں خوشی میں اَور تکلیف میں اَور جو ضبط کرنے والے ہیں غصہ کو اَور جو لوگ معاف کرنے والے ہیں۔ اَور اللہ محبت فرماتاہے اچھے کام کرنے والوں سے۔'' (سورۂ آلِ عمران آیت ١٣٤)