ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2010 |
اكستان |
|
جنرل الیگژینڈر وفد کے ارکان تھے ۔ ایک ہفتہ آرام کرنے کے بعد یا تازہ حالات کے پورے مطالعہ کے بعد یکم اپریل سے مشن نے ہندوستانی لیڈروں سے ملاقات شروع کی ۔ کُل ہند مسلم پارلیمنٹری بورڈ کے صدر کی حیثیت سے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی رحمة اللہ علیہ کو دعوت دی گئی تھی اَور چونکہ مسلم پارلیمنٹری بورڈ کے ساتھ دُوسری جماعتیں بھی اشتراکِ عمل کیے ہوئے تھیں لہٰذا جنابِ صدر کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ مزید تین افراد کو اپنے ساتھ لے آئیں چنانچہ عبدالحمید صاحب خواجہ مرحوم (صدر آل اِنڈیا مسلم مجلس ) شیخ حسام الدین صاحب (صدر آل اِنڈیا مجلس احراراِسلام ) شیخ ظہیر صاحب (صدر آل اِنڈیا مومن کانفرنس)۔ اِن تینوں جماعتوں کے سربراہوں کی حیثیت سے اَور جناب حافظ محمد ابراہیم صاحب (مرکزی وزیربرقیات) ترجمان کی حیثیت سے حضرت شیخ الاسلام کے ساتھ تشریف لے گئے ۔ اِس نمائندہ جماعت کو ایک ایسے صاحب ِبصیرت سیاسی کھلاڑی کی بھی ضرورت تھی جو نمائندگانِ پریس کی شوخیوںکا جواب بھی دے سکے اُس کی حاضر جوابی دُوسری پارٹیوں کے نکتہ چینیوں کو خاموش کر سکے۔ پر مغز و مد لّل خطابت ہر ایک دل کو مٹھی میں لے سکے۔ ایسی شخصیّت جو اِن اَوصاف کی حامل ہو، مولانا حفظ الرحمن صاحب کی شخصیّت تھی ۔ لہٰذا آپ کو بھی اِس نمائندہ وفد میںشریک کیا گیا ۔ ١٦اپریل ١٩٤٦ء کوچاربجے شام سے سوا پانچ بجے تک مشن سے ملاقات ہوئی ۔ جمعیة علمائِ ہند کا فارمولا وزارتی مشن کے سامنے پیش کیا گیا ۔وزارتی مشن نے اِس فارمولے سے یہاں تک دلچسپی لی کہ مقررہ وقت یعنی (نصف گھنٹہ) سے زائد ٤٥ منٹ فارمو لے کے مضمرات اَور اُس کے مفادات کو سمجھنے سمجھانے پر صرف کر دیے۔ حضرت مولانا ابوالکلام آزاد رحمةاللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب (اِنڈیا وِنس فریڈم ) میں ایک فارمولے کا تذکرہ کیا ہے جس کو وزارتی مشن نے حاص طورپر پسند کیا تھا اَور اِسی کی بنیادوں پر اپنا اعلان مرتب کیا تھا۔ مولانا آزاد نے اِس کتاب میں اِس فارمولے