ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2010 |
اكستان |
|
(کہ کافی لوگ اکٹھے ہوگئے ہیں) حضرت ابن عباس نے پوچھا کہ تمہارا کیا خیال ہے کیاوہ چالیس افراد ہوں گے؟ کریب کہتے ہیں (میں نے عرض کیاکہ ) ہاں(اِتنے ہوں گے) اِس پر حضرت ابن عباس نے فرمایا : تو پھر جنازہ(نماز کے لیے) باہر نکالو کیونکہ میں نے رسول اللہ ۖ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی مسلمان فوت ہوجائے اَور اُس کی نماز جنازہ چالیس ایسے مسلمان پڑھیں جو اللہ کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ ٹھہراتے ہوں تو اللہ تعالیٰ میت کے حق میں اُن کی سفارش کو قبول فرمالیتے ہیں۔ چالیس دن تک غلے کی ذخیرہ اَندوزی کی نحوست : عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ مَنِ احْتَکَرَ طَعَامًا اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا یُرِیْدُ بِہِ الْغُلَائَ فَقَدْ بَرِیَٔ مِنَ اللّٰہِ وَبَرِیَٔ اللّٰہُ مِنْہُ ۔( مسند رزین بحوالہ مشکوة ص ٢٥١) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ۖ نے فرمایا :جس شخص نے گرانی کے خیال سے چالیس دِن تک غلے کی ذخیرہ اَندوزی کیے رکھی تو وہ اللہ سے بری ہوا اَور اللہ تعالیٰ اُس سے بری ہوئے۔ ف : اُس شخص کے اللہ سے بری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اُس نے اللہ تعالیٰ کے اُس عہد کو توڑڈالا جو اِس نے احکام ِ شریعہ کی بجاآوری اَور مخلوق کے ساتھ ہمدردی اَور شفقت کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے کیا تھااِسی طرح اللہ تعالیٰ کے اِس سے بری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب اُس نے اِس بدترین عمل کے ذریعہ مخلوق کی پریشانی وتکلیف کاسامان کیا تو اللہ تعالیٰ نے اُس پر سے اپنی حفاظت اٹھالی اَور اُس کواپنی نظر ِ کرم اَور عنایت سے دُور کر دیا۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیۖ مَنِ احْتَکَرَ طَعَامًا اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً فَقَدْ بَرِیَٔ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی وَبَرِیَٔ اللّٰہُ تَعَالٰی مِنْہُ وَاَیُّمَا اَھْلُ عَرْصَةٍ اَصْبَحَ فِیْھِمِ امْرُأ جَائِع فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْھُمْ ذِمَّةُ اللّٰہِ تَعَالٰی ۔ (مسند احمد ج ٤ ص ٣٣) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانبی کریم ۖ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جس شخص نے چالیس دِن تک غلے کی ذخیرہ اَندوزی کیے رکھی تو وہ اللہ سے بری