ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2010 |
اكستان |
|
کو دینا مقصود نہیں ہوتا بلکہ ماں باپ کو دینا مقصود ہوتاہے۔ اِس لیے وہ سب نیوتہ بچے کی مِلک نہیں بلکہ ماں باپ اُس کے مالک ہیں جو چاہیں سو کریں ۔البتہ اگر کوئی شخص خاص بچہ ہی کو کوئی چیز دے تو پھر وہی بچہ اُس کا مالک ہے اگر بچہ سمجھدار ہے تو خود اُسی کا قبضہ کر لینا کافی ہے جب قبضہ کرلیا تو مالک ہوگیا۔ اگر بچہ قبضہ نہ کرے یا قبضہ کرنے کے لائق نہ ہو تو اگر باپ ہو تو اُس کے قبضہ کرلینے سے اَور اگر باپ نہ ہو تو دادا کے قبضہ کرلینے سے بچہ مالک ہوجائے گااَور اگر باپ دادا موجود نہ ہوں تو وہ بچہ جس کی پرورش میں ہے اُس کو قبضہ کرنا چاہیے۔ (بہشتی زیورص ٥/٣٤) ختنہ کے موقع پر لوگوں کو اہتمام سے بُلانا : (ختنہ کے موقع پر ) لوگوں کو آدمی اور خطوط بھیج کر بُلانا بالکل سنت کے خلاف ہے۔حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان ابی العاص کسی ختنہ میں بلائے گئے۔ آپ نے انکار فرمادیا۔ کسی نے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ پیغمبر ِ خدا ۖ کے زمانہ مبارک میں ہم لوگ ختنہ میں نہیں جاتے تھے اَور نہ اُس کے لیے بلائے جاتے تھے۔ (رواہ احمد ) اِس سے معلوم ہوا کہ جس کام کے لیے لوگوں کو بُلانا سنت سے ثابت نہیں اِس کے لیے بلانے کو صحابہ نے ناپسند فرمایااَور جانے سے انکار کیا۔ اور وجہ اِس کی یہ ہے کہ بُلانا اہتمام کی دلیل ہے تو شریعت میں جس چیز کا اہتمام نہیںکیا اُس کا اہتمام کرنا دین میں ایجاد کرناہے۔اِسی وجہ سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جب لوگوں کو چاشت کی نماز کے لیے مسجد میں جمع دیکھا تو براہ اِنکار اِس کو بدعت فرمایا ،اِسی بناء پر فقہاء نے نفلی جماعت کو مکروہ کہا ہے۔ (اصلاح الرسوم ص ١١٠، ١١١) اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ شریعت میں جس چیز کا اعلان ضروری نہیں اُس کے لیے لوگوں کو جمع کرنا اَور بُلانا سنت کے خلاف ہے۔ ختنہ کی دعوت : فرمایا میرے ایک عزیز ہیں اُن کے لڑکے کا ختنہ ہے چونکہ عزیزوں (رشتہ داروں ) کو زور ہوتا ہے اِس لیے اُنہوں نے کہا کہ ضرور آنا پڑے گا۔ میں نے کہا کہ میں اصلاح الرسوم میں منع لکھا چکا ہوں اَور حدیث بھی لکھی ہے کیسے جاسکتاہوں۔ کہیں گے تو ضرور کہ رُوکھا ہے لیکن عزیزوں سے بھی یہی کرنا پڑتا ہے۔ فرمایا ایک مرتبہ ایک شیعہ کے ہاں سے ختنہ کی تقریب پر ہمارے یہاں کھانا آیا۔ میں نے اِس تحریر