ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2010 |
اكستان |
|
کو اگر منسوب کیا ہے تو صرف اپنی جانب لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ جمعیة علمائِ ہند کا فارمولا تھا جو جمعیة علماء ِہند کے اجلاس لاہور (مارچ ١٩٤٢ء ) میں مرتب کیا گیا اَور اجلاس سہارنپور (مئی ١٩٤٥ء )میں اِس کی مزید توثیق اور تشریح کی گئی تھی۔ سیاسیات سے دلچسپی رکھنے والے اخبار بین طبقہ کوتقریباً ١٦ سال پہلے یہ بات فراموش نہیںہوئی ہوگی کہ مذکورہ بالا ملاقات سے ایک ماہ بعد ١٦مئی ١٩٤٦ء کو وزارتی مشن نے جو سفارشات پیش کیں وہ اُن ہی لائنوں اور خطوط پر تھیں جن کی طرف جمعیة علمائِ ہند کافارمولا اِشارہ کررہا تھا۔ وزارتی مشن نے پاکستان کی تردید کرتے ہوئے نظریۂ پاکستان کو ہندوستان کے لیے مضرت رساں قرار دیا تھا۔اِن سفارشات کی بنیاد پر ٢ستمبر ١٩٤٦ء کو عارضی حکومت کا قیام عمل میںآیا تو کیبنٹ کے ١٤ ممبروں میں پانچ مسلمان تھے یعنی٣/١سے کچھ زیادہ اور مالیات کا اہم ترین محکمہ نواب زادہ لیاقت علی خان کے سپرد کیا گیا تھا۔ مگر بخت واژگوں نے پھر پلٹا کھایا،لیگ کی طرف سے ردِّ عمل تو لازمی تھالیکن برطانوی ایجنٹوںکی دورُخی پالیسی نے اِس کی نوعیّت میں خونریزی بھی شامل کردی ۔اِنتہا یہ کہ تقسیم کا سوال پھر شدّت سے سامنے آیا اور اِس مرتبہ کانگریس کی غیر معمولی اکثریت بھی تقسیم کی حامی بن گئی۔ سیاست کا یہ دور بھی نہایت پرپیچ تھا اور عجیب بات یہ ہے کہ اِس کے متوقع نتائج کسی ایک فیصلے پر متحد کرنے کے بجائے ہر ایک فریق کے لیے متضاد دلائل مہیّا کر رہے تھے۔ مثلاً یہ بات مشہور ہے کہ سردار پٹیل جو اِس عارضی حکومت میں وزیر داخلہ بنائے گئے تھے اُن کو اِس سے سخت تکلیف ہوئی کہ وہ اپنے اختیارات سے ایک چپڑاسی کا تقرر بھی نہیں کر سکتے ،چپڑاسی کے لیے بھی وزیر مال نواب زادہ لیاقت علی خاںکی منظوری کے محتاج ہیں (جنہوں نے پارلیمنٹ سے ایک ایسا میزانیہ منظور کرالیاتھا جس نے ہندوستان کے سرمایہ داروں کو سراسیمہ کردیا تھا)۔