ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2010 |
اكستان |
یہ خیال بھی خواب سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا کہ پاکستانی حکومتیں باہر کی مسلم حکومتوں اَفغانستان و ایران وغیرہ کی حلیف بن کر مضبوطی حاصل کرلیں گی کیونکہ معاہدہ سعد آباد کا قریبی واقعہ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے اَور ترکوں کے ایران کے ساتھ سابقہ معاہدات ١ کیا نتائج برآمد کرسکے اِن سے بھی روشنی حاصل کیجیے۔ (کشف ملخصًا تا ص ٧١) اِن تمام خدشات کی نشاندہی کرنے کے بعد آخر میں مل بیٹھنے اَور غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں اور یہ حضرت مدنی کے رسالہ ٢ کی آخری سطور ہیں : ''اسلامی نقطۂ نظر سے صحیح طریقۂ کار یہ ہے کہ مسلمانوں اور مسلم جماعتوں کے نمایاں اصحاب ِرائے اور صائب الرائے حضرات مجتمع ہوں اور موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لے کر کھلے دل و دماغ کے ساتھ یہ سوچیں اَور غور کریں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے باعزت مقام کس طرح مل سکتا ہے اور اُس کے حصول کے لیے کیا طریق ِ کار ہو؟ پس اگر مسلم لیگ اِس صورت کے لیے آمادہ ہے تو بسم اللہ ہم سب حاضر ہیں۔اگر حضرت مولانا (شبیر احمد صاحب عثمانی صدر جمعیة علماء ِاِسلام) لیگ کو اِس پر آمادہ کرسکتے ہیں تو ''چشم ِ ما روشن دلِ ما شاد'' (کشف آخری صفحہ ٩٣) لیکن اَفسوس ہے کہ ایسا نہیں ہوسکا۔ حضرت مولانا سیّد محمد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ جو طویل عرصہ تک ناظمِ جمعیة علمائِ ہند رہے پھر حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب کی وفات پر ناظمِ عمومی (جنرل سیکرٹری ) رہے ۔ مولانا حفظ الرحمن رحمة اللہ علیہ کی یاد میں الجمعیة کے مجاہد ِملّت نمبر میں اپنے ایک طویل مضمون میںبہت سے اَحوال و واقعات قلم بند فرمائے ہیں اُن میں اِس فارمولے کا پورا خاکہ دیا ہے ۔سوال یہ ہوتا ہے کہ تقسیمِ ہند سے پہلے پہلے ہر جماعت کو اختیار تھا کہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق جو فارمولا مسلمانوں کے لیے ١ اَب اِس کا نام آرسی ڈی ہے۔ ٢ اِسی رسالہ کا نام'' کشف ِ حقیقت'' ہے جو مولانا سیّد حسین احمد مدنی صاحب مدنی کی تصنیف ہے۔ اِسے مرکزی دفترجمعیة علمائِ ہند نے ١٩٤٥ء میں شائع کرایا ہے۔