ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2010 |
اكستان |
پاکستانی فارمولا میں پاکستانی مرکز کو ڈیفنس کا عظیم بار برداشت کرنا پڑے گا جس سے پاکستانی باشندے عہدہ بر آنہیں ہوسکیں گے۔ موجودہ زمانہ کے لحاظ سے ہر قسم کی تیاری کے ساتھ افواج کا مکمل انتظام اِتنا مشکل کام ہے کہ آج اِس سے بڑی سے بڑی حکومتیں لرزہ براَندام اَور پریشان ہیں اور اِس بارے میں مغربی بنگال کی اکثریت اَور مشرقی پنجاب کی اکثریت جو غیر مسلم ہوگی تعاون نہ کرے گی۔ مجوزہ پاکستانی علاقے ہندوستان کی اُن سرحدات پر واقع ہیں جن سے ہمیشہ بیرونی قوتیں ہندوستان میں داخل ہوتی رہی ہیں۔ اُنہوں نے تحریر فرمایا کہ آج بھی اِن ہی حدود سے رُوس ١ و چین وغیرہ کے خطرات وابستہ ہیں اِس لیے فوجی تیاری میں کوتاہی ہوگی۔ اِسی طرح فارین پالیسی کے مصارف بھی موجودہ زمانہ میں معمولی نہیں ہیں۔ جمعیة کے فارمولا میں ڈیفنس کا تمام بار پورے ہندوستان پر ہوگا نہ کہ فقط مسلمانوں پر۔ پاکستان کو داخلی امن و امان کے لیے بھی بڑی افواج کی ضرورت ہوگی۔ بنگال میں بھوٹانیوں اَور نیپالیوں کے خطرے ہر زمانہ میں اَندر اَور چینیوں جاپانیوں امریکنیو ں اَور رُوسیوں کے خطرات باہر موجود رہیں گے اور اپنے آپ کو اکیلے سنبھالنا آج کل بڑی طاقتوں کے لیے بھی مشکل ہے۔ ممکن ہے انگریزی حکومت کے دبائو سے آزاد ہوتے ہی خانہ جنگی شروع ہوجائے جو اِس خطہ کے امن و امان کو سالہا سال کے لیے بھسم کردے۔ ١ دقت ِ نظر سے ملاحظہ ہو چین سے تو ہندوستان کی لڑائی اِسی مقام پر ہو چکی ہے۔ یہ حصہ آسام میں ہے اَور وہ پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ لیکن تقسیم کے وقت جہاں بہت سا علاقہ اَور کم ہوا یہ پورے کا پورہ صوبہ بھی ہندوستان میں چلا گیا اَور ١٩٦٢ء اِسی علاقہ پر ہندوستان اَور چین کی لڑائی ہوئی۔ یہ علاقہ پاکستان میں نہیں آیا اَور پاکستان چین کی دوستی چل رہی ہے۔ یہ (Disputed Area) آسام کے پہاڑی درّے تھے جن میں سلطنت ِ مغلیہ اَور چین کا اِختلاف چلا آرہا تھا۔ اَور شمال مغربی سمیت رُوس کی طرف سے تا تاری وغیرہ کوہ ہندو کش کے اِرد گرد سے راستے اختیار کر کے حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔