ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2010 |
اكستان |
|
زیادہ فلاحی سمجھے، پیش کرے ۔ اگر جمعیة علمائِ ہند نے اپنا فلاحی فارمولا پیش کیا تو کیا جرم کیا ؟ اِس بحث کے لیے اُن ہی تاثرات کے تحت ایک عنوان بھی قائم فرماتے ہیں کہ ''جرم کیا تھا؟ '' اور پھر فارمولا بیان کرتے ہیں جو ہم بعینہ نقل کر رہے ہیں : جُرم کیا تھا ؟ میرے احباب اور بزرگ یہ تلخ نوائی معاف فرمائیں کہ اِس دور میں ایک بڑا ظلم جمعیة علماء ِہند پر کیا جاتا رہا برطانوی مشنر ی جمعیة علمائِ ہند کے خلاف کام کر رہی تھی اور اُس کو ایسا ہی کرنا چاہیے تھا کیونکہ جمعیة علمائِ ہند اِس کی حریف تھی اور ہندوستان سے اِس کا نام ونشان مٹانا چاہتی تھی۔یہ مشنری پروپیگنڈے کی تمام طاقت دو باتوں پر صرف کر رہی تھی، اوّل یہ کہ کانگریس ہندوؤں کی جماعت ہے اور آزادی کا مطالبہ ہندوؤں کا ہے مسلمان اس کے حامی نہیں ہیں۔دُوسرے یہ کہ جمعیت علمائِ ہند اور قوم پرور مسلمان فریب خوردہ ہیںیہ کوئی مثبت پالیسی نہیں رکھتے صرف کانگریس کی ہمنوائی ان کا نصب العین ہے۔ جمعیة علمائِ ہند اور قوم پرور مسلمانوں کی اتنی طاقت نہیں تھی کہ برطانوی پروپیگنڈے کا مقابلہ کامیابی کے ساتھ کر سکتے ،خصوصًا ایسی صورت میں کہ مسلمانوں کی اکثریت کو اِس پروپیگنڈے نے نہ صرف متاثر بلکہ مسحو بنا دیا تھا ۔ لا محالہ جمعیة علماء ِہند کی آواز ''نقارخانہ میں طوطی کی صدا '' بن کر ناکام ہوتی رہی۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ جمعیة علمائِ ہند پاکستان کا بہترین بدل تلاش کر چکی تھی اور ایک ایسا فارمولا منظور کر چکی تھی کہ وہ کامیاب ہو جاتا تو ملک کی طاقت میں یہ رَخنہ نہ پڑتا کہ ایک ہی ملک کے دو حصّے جن کے متعلق اَب یہ کہا جا رہا ہے کہ کسی بھی حصّہ کا کامیاب دفاع اور تحفظ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک اُن دونوں کی فوجی کمان ایک نہ ہو ۔یہ دو حصّے ایک دُوسرے کے مقابلہ میں تیر و ترکش سنبھالے ہوئے ہیں اور مالیہ کا بڑا حصّہ جو تعمیر و ترقی یا کسی بیرونی طاقت کے مقابلہ پر دفاعی طاقت کے مضبوط بنانے میں صرف ہوتا،اپنے ہی