ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2010 |
اكستان |
لہٰذا اگر مرکز میں مسلمانوں کو کسی قسم کی مراعات نہ بھی دی جائیں تب بھی وہ ایسی مؤثر اَقلیت میں ہوں گے جس کی وجہ سے مخالفت کے وقت میں ڈیڈلاک پیدا کرسکیں گے۔ اَور اگر اُن کو حسب ِ قانون ١ موجودہ مرکز میں ایک تہائی سیٹیں دے دی گئیں تب تو وہ تینتیس فیصدی کے مالک ہو کر زیادہ تر قوی ہوجائیں گے۔ اَور اگر جمعیة کے فار مولا کے مطابق اُن کو مرکز میں ٤٥+٤٥ +١٠ سیٹیں دی گئیں تو مسلم سیٹیں نہ صرف بھاری مؤثر اَقلیت میں ہوں گی بلکہ وہ اِس کا بھی امکان رکھ سکیں گی کہ جدو جہد کر کے غیر مسلم اَکثریت کو بھی دبا سکیںیعنی اگر وہ سیاسی جدو جہد کر کے دیگر اَقلیتوں میں سے پانچ بھی سیٹیں اپنے ہم خیال بنالیں گے جیسا کہ عیسائی اَچھوتوں وغیروں کے ساتھ مشاہدہ ہے تو وہ صرف اَقلیت ہی سے نہ نکلیں گی بلکہ مرکز میں بھی اکثریت حاصل کر سکیں گی اَور سیاسی جدو جہد روز اَفزون ترقی پزیر ہوگی۔ (کشف ص ٦٢،٦٣) (اَور ص ٥٥ پر تحریر ہے کہ سرچھوٹو رام مجیٹھ وغیرہ کا نگریسیوں کے خلاف مسلمانوں سے مل کر وزارتیں چلاتے رہے اَور خود مسلم لیگ ہندوؤں اَور صرف اقلیتوں کے ساتھ مل کر وزارت چلاتی رہی۔ ملخصًا۔یعنی اقلیتوں کا مسلمانوں کے ساتھ ملے رہنے کا تجربہ ہوچکا ہے ) لیکن یہ سب کچھ اِس صورت میں ہو سکے گا کہ ملک کی تقسیم مذہبی منافر ت پر نہ ہو اَور ایک مرکز تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ صوبہ جات خود مختار تسلیم کرلیے جائیں ۔ اَور مرکز میں مسلمانوں کی اقلیت کا مداوا ایسا مضبوط تحفظ ہو جو ہر طرح اَکثریت کے رحم و کرم سے محفوظ رکھ کر اِس کو من مانی ترقی کا موقع نصیب کرے۔ اَور یہی وہ تحفظات ہیں جن کو عَلٰی سَبِیْلِ الْعَدْل جمعیة علماء کے فارمولا میں ذکر کیا گیا ہے۔ '' (کشف ص ٦٣) حضرت ِمدنی ''کشف ِحقیقت'' ہی میں یہ بھی تحریر فرماتے ہیں : ١ یعنی گورنمنٹ آف اِنڈیا ایکٹ