ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2010 |
اكستان |
|
اَور میاں بشیر احمد صاحب رُکن ورکنگ کمیٹی لیگ لاہور کے جلسۂ عام میں تقریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ''ہمارے قائد ِ اعظم بار بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں بلا لحاظِ مذہب عوام کی حکومت ہوگی، پاکستان میں ہندوؤں اَور سکھوں کو (مسلمانوں کے ساتھ) برابری اَور آزادی دی جائے گی۔ '' (منشور ١١ نومبر ١٩٤٥ء ۔کشف ص٦٥ ) جمعیة علماء کے اَکابر قائد اعظم کے اِن بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کرتے تھے (جیسا کہ کشف ہی میں ہے) کہ ایسی جمہوری حکومت میں جو یورپین طریقوں پر نشو نما پائے گی۔ ہندو سیاسی پارٹیاں بنا کر سیاسی گٹھ جوڑ کے ذریعہ پاکستان میں بھی برسرِ اقتدار آسکتاہے۔ مسلمانوں کی پارٹی بازی بعید نہیں اَور ہندو کو اِس سے فائدہ نہ ہونے کی کوئی وجہ نہ ہوگی۔ کرشک پر جاری پارٹی اَور یونینسٹ پارٹی نے مسلم ممبران کو اپنے ساتھ ملا رکھا ہے۔ ہمیشہ مسلم اَکثریت کا ایک طرف رہنا ایک خواب و خیال ہوگا۔ اَور پاکستان کا فار مولا بیکار جائے گا ۔ (٢) پاکستانی فارمولا کی بناء پر غیر مسلم اَقلیتیں جو تقسیم کی مخالف ہیں وہ پاکستانی حکومت کو کبھی چین سے حکومت نہ کرنے دیں گی۔ سکھ جاٹ ہندو اِس طرف اَور مشرقی پاکستان میں ہندوؤں کی وہ اِنقلابی پارٹی حکومت کو چین نہ لینے دے گی جس نے تقسیم ِ بنگال کی پہلے اِس شدت سے مخالفت کی تھی کہ حکومت ِ برطانیہ کو دارالسلطنت کلکتہ سے دہلی منتقل کرنا پڑا اَور ١٩١١ء میں تقسیم ِ بنگال منسوخ کرنے کے بعد امن ہوا۔ (کشف ص ٦٥، ٦٦ملخصًا) اِس کے برعکس اگر مسلمان پورے ہندوستان کی حکومت میں شریک ہوں تو وہ ستائس فیصد ہوں گے اَور ہندوؤں کی پارٹی بازی سے وہ فائدہ اُٹھائیں گے اَور پورے ہندوستان میں اپنی مجموعی تعداد کی بنا ء پر ہرگز اِس قدر غیر محفوظ بھی نہیں ہوسکیں گے۔ نہ ہی اُنہیں بنگال کے ہندوؤں اَور مغربی علاقہ کے ہندو سکھ اَور جاٹوں کے پیچیدہ معاملات سے واسطہ پڑے گا۔ اَور مرکز میں جمعیة کے فار مولا میں مذہبی تحفظ بھی رکھا گیا ہے لیکن تقسیم کی صورت میں جو مسلمان بقیہ ہندوستان میں رہ جائیں گے وہ صرف گیارہ فیصدی رہ جائیں گے۔ سینسس آف اِنڈیا ١٩٤١ء ص ٩٨، ٩٩ حصہ اوّل جلد اوّل مرتبہ ایم ڈبلیو ایم پائیس (سی آئی اے) آئی سی ایس، سینسس کمشنر آف اِنڈیا میں حسب ِذیل تفصیل ہے :