ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2010 |
اكستان |
مِٹاڈالیں اَور اِس طرح اُنہیں اِرتداد کی بھٹی میں خود جھونک دیا جائے اَور اُن کا حل نہ نکالا جائے۔ '' مسلمان کو جناب ِ رسول اللہ ۖ نے خانۂ کعبہ سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ کے یہاں محترم اَور قا بل ِ وقعت بتلایا ہے اَور یہ بھی اِرشاد فرما یا ہے لَزَوَالُ الدُّنْیَا اَھْوَنُ عَلَی اللّٰہِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُّسْلِمٍ (یعنی تمام دُنیا کا نیست و نابود ہوجانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل سے کم اَور اَدنیٰ ہے) چہ جائیکہ اِتنی بڑی تعداد کو اُن کی عزت آبرو اہل و عیال کو خود بربادی کی نظر کردیا جائے۔ اِس لیے اَکابر ِ علمائِ ہند کے نزدیک ایسا خاکہ ناقابل ِ قبول تھا۔ اَکابر ِ جمعیة علماء کہتے تھے مسلم ا قلیت والے علاقوں میں اگر مسلمانوںسے زیادتی ہوگی تو یہ جائز نہ ہوگا کہ مسلم اَکثریت والے علاقہ کی غیر مسلم رعایا سے اِس کا بدلہ لیا جائے۔ دیگر وجوہ (کشف ِ حقیقت ہی سے) اِس مسئلہ پر اَور گزشتہ مسئلہ پر جس کا مدار اَور جس کے نتائج کا انحصار تناسب آبادی پر تھا شدید اختلاف تھا کیونکہ پاکستانی علاقہ میں مسلم اَکثریت برائے نام ہوتی جو ہندو پریس مال و دولت پروپیگنڈے کے آگے بے اَثر ہوتی۔ اَوراگرچہ مسٹرجناح کا مذکورہ بیان پاکستان میں اِسلامی حکومت کی خبر دے رہا ہے مگر بعد کے بہت سے بیانات میں اِسلامی حکومت نہیں تھی بلکہ ٤٥ء سے وہ جمہوریت کے حق میں ہوگئے تھے۔ قائد اعظم نے نمائندہ نیوز کرانیکل لندن کو بیان دیتے ہوئے فرمایا : '' پاکستان کی حکومت جمہوریت کے طریقہ پر ہوگی۔ہندو اَورمسلمان اپنی آبادی اَور مردم شماری کی حیثیت سے رائے شماری کر کے فیصلہ صادر کریں گے اَور وزارتوں اَور لیجیلیشن (قانون سازی) میں سب حصہ دار ہوں گے۔'' (ڈان۔ مدینہ بجنور ١٧ نومبر ٤٥ء ۔کشف ص ٦٢) اِس کی مزید تفصیل قائد اعظم نے ٨ نومبر ١٩٤٥ء کو ایسوسی ایٹیڈپریس آف امریکہ کے نمائندہ کو بیان دیتے ہوئے فرمائی کہ : ''پاکستان ایک جمہوریت ہوگا اَور جداگانہ علاقوں (شمال مغرب حصہ پنجاب و سندھ وغیرہ اَور شمال و مشرق حصہ بنگال و آسام )پر مشتمل ہوگا۔ اِس کی آبادی دس کروڑ